ہم سب آزاد ہیں – آصف فاروق
سوچ رھا ھوں کیا لکھوں آزادی کو کس معنی میں لکھوں کیا یاد کروں اور کیا بھول جاؤں ہاں ہم نے آزادی حاصل کی تھی آزاد ھونے کے لیئے جدوجہد بھی کی تھی اس جدوجہد کو میں کیا نام دوں آزادی کے قافلے در قافلے روانہ ھوتے تھے اور بچے کھچے بمشکل تین سے پانچ لوگ پہنچتے تھے اس آزادی کی جدوجہد میں کیا کیا قربانیاں دی اگر لکھنے بیٹھوں تو شاید ایک ضخیم کتاب بھی کم پڑ جائے مگر ہم آزادی کی اس جدوجہد کو بھول کر آزادی منانے نکل پڑتے ھیں اگر وہ سب لوگ دوبارہ زندہ ھوں تو ان سب کا ایک ھی دکھ ھوگا کیا ہم نے آزادی اس لیئے حاصل کی تھی آج ہم نے آزادی کو صرف سیر وتفریح ہلا گلا کرنے کا نام رکھ دیا پرچم اٹھایا اور نکل پڑے آزادی منانے وہ پرچم جس میں مقدس لاشیں دفنایا کرتے تھے آج اتنا بے وقعت ھوگیا ھے کہ ہم اس کو گندی نالیوں میں بہادیتے ھیں وہ پرچم کے جس کو تھامنے والے خود کٹ جاتے تھے مگر پر چم کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دیتے تھے آج ہمیں سوچنا پڑے گا سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا کہ کیا ہم واقعی آزاد ھیں دو نظریہ کی بنیاد پر الگ ھونے والے ملک میں کس حد تک ہم آزاد ھیں ہر لحاظ سے چاھے وہ مذھب کی آزادی ھو یا سماجی آزادی ھو جب اس نقطے پر ملکر ہم سوچنے بیٹھیں گے تو پھر ہم میں شاید احساس ھو ان قربانیوں کا جنہیں آزادی حاصل کرنے کے لیئے ہمارے آبا واجداد نے دی تھی تب شاید آزادی کا مفہوم ہمیں سمجھ آئے گا اور مفہوم سمجھ آتے ھی اس کے لیئے ہم جب جدوجہد کریں گے سارے ملکر سوچیں گے پورا ملک ایک بات پر متفق ھوگا دشمن کے مقابلے میں فوج کے ساتھ جب عوام بھی صف در صف نظر آئیں گے تب شاید ہم کہہ سکیں ہاں آج ہم آزاد ھیں ہاں آج ہم آزاد ھیں اللہ پاک آزادی کی راہ میں دی جانے والی قربانیوں کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین