کتابوں پر تبصرے

راجہ گدھ، عائشہ چوہدری

راجہ گدھ کے چار مرکزی کردار پروفیسر سہیل جو گورنمنٹ کالج لاہور میں سوشیالوجی/عمرانیات پڑھاتے ہیں۔۔
آفتاب
جو قالین سازی کا بزنس کرنیوالی ایک اندرون لاہور کی کشمیری فیملی کا خوبصورت نوجوان ہے۔۔
سیمی
بقول بانو قدسیہ “گلبرگی” معاشرے کی پیداوار ،جدید تراش خراش کے لباس پہنتی۔۔ریڈیو کی طرح بجنے والی ،پٹر پٹر بولنے والی ایک ماڈرن لڑکی جو اندرون لاہور کے ایک متمول کشمیری لڑکے پہ دل ہار گئ۔
قیوم شیخوپورہ کے ایک گاؤں سے لاہور آیا ہوا واجبی شکل و صورت کا ایک کتابی کیڑا ہے۔۔
راجہ گدھ پہ ہر دور میں تبصرہ اور تنقید برابر ہوتی رہی لوگ اسے مسترد کرتے رہے اور پڑھتے رہے۔۔اسے اشفاق صاحب کا ناول کہا جاتا رہا اسے رجعی ناول کہہ کر منطق کے خلاف ایک ادبی ڈھکوسلا قرار دیا گیا۔۔
اسے قدرت اللہ شہاب کے دوستوں،پیروکاروں کی ایک انتہائ نامناسب زبردستی کی صوفیانہ سازش لکھا جاتا رہا۔۔نقاد ہر دور میں ناراض رہے کہ راجہ گدھ جنرل ضیا الحق کے منافقانہ خیالات کی تبلیغ کے لئے لکھا گیا ایک نام نہاد اسلامی اصلاحی ناول ہے۔
میرے لئے یہ ناول جتنی بار میں نے پڑھا ایک نی سیکھ کا باعث بنا ناول میں استعمال کی گئ تشبیہات کرداروں کے کردار کو قاری کے ذہن پہ چھاپ دیتی ہیں۔
ناول عشق لاحاصل اور حلال و حرام کے موضوعات کو متعارف کرواتے ہوئے کچھ غیر منطقی سائنس کی تھیوریز اور عرفانیت یعنی تصوف کی راہ پہ چل نکلتا ہے۔۔مرکزی خیال حلال و حرام ہی ہے ایک حصہ پرندوں والا علامتی لیکن بہت دلچسپ۔ناول اپنے قاری پہ سرشت کے متعلق ایک سوال چھوڑ رہا ہے۔۔یعنی کوئ انسان کس حد تک اچھائ یا برائ پہ قادر یا محتاج ہے۔۔اس حوالے سے انسان کی نفسیات بیان کرنے کے لئے بانو آپا نے پرندوں کی گفتگو اور سرشت کے پردے میں جو گہرے تجزیے کر دئے ہیں انہیں پڑھ کے جھٹلانا ناممکن لگتا ہے۔۔
جیسا کہ تمام پرندے گدھ کے دیوانے پن کو اسکے مردار کھانے کا نتیجہ سمجھتے ہوئے اسے انسان سے مماثلت دیکر خود سے الگ کرنا چاہتے ہیں
مردار کھانا دراصل محنت سے جی چرا کر رزق کا آسان طریقہ دریافت کرنا ہے چاہے اسمیں تعفن اور غلاظت ہی حاصل ہو۔۔یہ انسان کے لقمہ حرام پہ ایک گہری چوٹ ہے !!!!
لیکن تمام تر دیوانگی اور دیوانے پن کا اصل منبع “عشق لا حاصل” ہے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے گدھ اور انسان کی کردار سازی میں بڑا میل دکھایا گیا ہے
سیمی کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی جو آفتاب کے عشق میں بے توجہی اور ذہنی انتشار کے باعث خودکشی تک آ پہنچتی ہے۔
آفتاب جیسے کردار کو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنا کر ایک ایسی کشش بنا کر پیش کیا گیا ہے جس سے بچنا یا اسے رد کرنا ناممکن ہے جو ساری تفریح کے نام پہ اپنے تعلقات کو کیش کر کے اپنے خاندان کی مرضی سے شادی کر بیچ رستے میں الگ ہو جاتا ہے۔
قیوم ایک دیہاتی نوجوان جو آفتاب کی غیر موجودگی کے موقع پہ چوکا لگانے کے چکر میں سیمی کی نزدیک آتا ہے لیکن محبت کے نام پہ ایک مردہ جسم سے جسمانی تعلقات بنا کر “گدھ جاتی” کا مکمل نمونہ عیاں کر دیتا ہے۔۔
جب جہاں جس عورت سے جڑتا ہے وہ کسی اور سے وابستہ ہوتی ہے خود اپنے لئے ایک کنوری باکرہ بیوی کی چاہ میں ایک ایسی لڑکی کو نکاح میں لے آتا ہے جو پہلے سے کسی اور سے حاملہ ہے اور یہاں سے مصنفہ اسے گناہ کی دلدل سے کھینچ اپنی ذات سے بیگانہ کر کے تصوف کے در پہ اسکا ماتھا ٹیک دیتی ہیں جس سے بہرحال مجھے بہت اختلاف ہے۔۔
میرے لئے ناول کا سبق مورل ویلیوز ،تعلیم،آکسفورڈ کے سلیبس کے علاؤہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت اور اپنی زندگی کے معاملات میں حرام اور حلال کے نقاط کو سمجھنا ہے کمزور اخلاقی قدروں ،اور گناہ کو لذت سمجھ کر اپنا معاملہ بنا لینے پہ انسان کی نسل میں گدھ ہی پیدا ہونگے اقبال کے شاہین نہیں۔۔!!!!!!!

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button