چٹ کپڑی۔۔۔سمے کا بندھن
چٹ کپڑی
دو سال کے بعد میں فرید آباد آیا تھا۔ ائیر پورٹ پر اترتے ہی میں نے محسوس کیا کہ فرید آباد میں بہت تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ ٹیکسی والے نے ایلیٹ ہوٹل میں جانے کو کہا۔ دو سال پہلے بھی میں ایلیٹ میں ہی ٹھرا تھا۔ مجھے کسی اور ہوٹل کا علم نہ تھا۔
اتفاق سے ایلیٹ ہوٹل میں وہی کمرہ مل گیا جہاں میں پہلے ٹھہرا تھا۔ پرانی یادیں پھر سے تازہ ہو گئیں۔ مجھے راحیل راو یاد آ گیا۔
«
راحیل راو میرا پہلا پیشنٹ تھا۔ اس زمانے میں، میں امریکہ سے تحصیل علم کرنے کے بعد پاکستان واپس آیا تھا۔ ابھی باقاعدہ پریکٹس شروع نہیں کی تھی۔ کلینک کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اسی سلسلے میں فرید آباد آنا ہوا تھا۔ ہوٹل میں جب مجھے راو کا فون آیا تھا تو میں بہت حیران ہوا تھا۔ کوئی شخص کہہ رہا تھا: ڈاکٹر صاحب، میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ کیس بے احد اہم ہے۔ فوری توجہ نہ ملی تو پتا نہیں، کیا ہو گا۔۔
اس فون پر میں حیران ہوا کہ اسے کیسے پتا چل گیا کہ میں تحلیل نفسی کا ڈاکٹر ہوں اور ایلیٹ میں ٹھہرا ہوا ہوں۔
بہرحال، میں نے مسٹر راو کو بلا لیا تھا۔
مسٹر راو ماڈ قسم کا نوجوان تھا۔ تیس پینتیس کے درمیان۔ پڑھا لکھا۔ کھاتا پیتا۔ کلچرڈ گھرانا۔ رکھ رکھاو کا دلدادہ۔ ایک عجیب بات تھی۔ حرکت کا دلدادہ ہونے کے باوجود اس میں توازن کی اہلیت نمایاں تھی۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ، تفکر یا پریشانی کا عنصر مفقود تھا۔
کرسی پر بیٹھتے ہی وہ بولا: “ڈاکٹر، میں سخت ڈسٹرب میں ہوں۔ مجھے اس مشکل سے نجات دلائیے۔ ورنہ۔۔۔۔۔ ورنہ پتا نہیں کیا کر بیٹھوں۔”
“کیس کیا ہے؟” میں نے پوچھا۔
“پہلے مجھے بتائیے کہ محبت کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟”
محبت کا نام سن کر میرا ذہنی تناو ختم ہو گیا۔ محبت تو کوئی بڑی مشکل نہیں۔ مغرب میں تو محبت کا مفہوم جنسی ہوتا ہے، یا توجہ طلبی کا جنون، اور بس۔
“میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا”۔ میں نے کہا۔
“میرا مطلب ہے، کیا آپ محبت کو صحت مند جذبہ سمجھتے ہیں یا بیماری؟”
“کچھ کہہ نہیں سکتا، جب تک آپ کوائف بیان نہ کریں۔”
“ڈاکٹر صاحب، میری پرابلم محبت نہیں”۔ وہ بولا: “محبت کو ہم لوگ پرابلم نہیں سمجھتے۔ میری مشکل یہ ہے کہ مجھے بیک وقت دو لڑکیوں سے محبت ہے۔”
میرے دل میں کیس کی رہی سہی اہمیت بھی ختم ہو گئی۔ مغرب میں تو بیک وقت چار چار افئیرز چلتے ہیں۔ کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی۔ پھر دفعتہ مجھے خیال آیا کہ شاید سنس آف گلٹ نے گڑبڑ کر رکھی ہو۔ مشرق میں ایک لڑکی سے محبت کرنا قابل تحسین فعل سمجھا جاتا ہے، لیکن بیک وقت دو لڑکیوں سے محبت کرنا قابل نفرین بات۔
“ہاں ہاں” میں نے مسٹر راو سے کہا۔” آپ پورے کوائف بیان کرتے جائیے۔ رکیے نہیں۔”
“اور وہ دونوں لڑکیاں ایک دوسری کی ضد ہیں، ڈاکٹر” وہ بولا: “ایک مدھم، نمی نمی۔ دوسری شوخ بھڑک کر جلنے والی۔ ایک سحر، دوسری دوپہر۔ ایک گونگی، دوسری قینچی۔ ایک سکون، دوسری ہلچل، ایک میٹھی، دوسری مرچیلی”۔ وہ جذباتی ہو گیا۔
“ہوں۔ ان دونوں کا آپ کی طرف ردعمل کیا ہے؟” میں نے پوچھا۔
“پازیٹو، ڈاکٹر” وہ بولا “دونوں ہی مجھے میسر ہیں۔”
“اچھا ! وہ کیسے؟” میں نے پوچھا۔
“ایک میری بیوی ہے” وہ بولا “دوسری میری سیکرٹری ہے۔”
“اوہ !” میں چونکا “پھر تو وکئی پرابلم نہیں ہونی چاہئیے۔”
“ہے، ڈاکٹر، ہے” وہ بولا “ہے۔”
“سنس آف گلٹ ہی ہو سکتی ہے۔”
“وہ بھی ہے، ڈاکٹر۔ مجھے ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کہ انہیں میری ذہنی کیفیت کا علم نہ ہو جائے۔ اگر ہو گیا تو مشکل پڑ جائے گی۔ دونوں ہی خوددار لڑکیاں ہیں۔”
“کیا انہیں ایک دوسری کے بارے میں علم نہیں؟”
“نہیں، ڈاکٹر۔ میری بیوی امنا کو شک ہے اور سیکرٹری مونا سمجھتی ہے کہ بیوی سے میرا رسمی رشتہ ہے۔ محبت صرف اسی سے ہے۔ پھر بھی کبھی کبھار مونا کو بھی شک پڑ جاتا ہے۔”
“وجہ؟” میں نے پوچھا۔
“وجہ میں خود ہوں” وہ بولا “ڈاکٹر، اپنی زندگی کی سب سے بڑی مشکل میں خود ہوں۔”
“حیرت ہے!” میں نے کہا “کیا آپ بات چھپانے کی اہلیت نہیں رکھتے؟”
“بہت، ڈاکٹر، بہت اہلیت رکھتا ہوں۔ لیکن بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں خود اپنا راز اچھال دیتا ہوں۔ میں سمجھاتا ہوں آپ کو” وہ جوش سے بولا “دراصل بات یہ ہے کہ جب میں مونا کے پاس ہوتا ہوں تو میرے دل میں امنا کی آرزو ابھرتی ہے۔ ابھرے جاتی ہے۔ اس قدر مسلط ہو جاتی ہے کہ مونا پورے طور پر فیڈ آوٹ ہو جاتی ہے، اور اس کی جگہ امنا آ موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح جب میں امنا کے ساتھ ہوتا ہوں تو امنا فیڈ ہو جاتی ہے اور مونا آ موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹر، یہ اتبا بڑا آپٹیکل الوژن ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ جیسے سراب ہوتا ہے۔ آپ اسے نہیں سمجھ سکتے” وہ جوش سے بولا “اس سے بڑی مشکلات پیدا ہوتی ہیں، بڑی مشکلات۔ ذرا سوچئیے ڈاکٹر۔ تخلئیے میں امنا کے ساتھ ہوتا ہوں تو میرے روبرو مونا ہوتی ہے اور میں یہ بھول جاتا ہوں کہ یہ فریب خیال ہے۔ مثلا امنا کے بال لمبے ہیں، سیدھے ہیں، سنہرے ہیں۔ مونا کے گھنگھریالے ہیں، بھور کالے ہیں، کٹے ہوئے ہیں۔ کئی بار میں امنا سے کہتے کہتے رک جاتا ہوں: ڈارلنگ اب کی بار تمہارا ہئیرکٹ بڑا اسٹائلش رہا۔”
مجھے راہ کی مشکل کا احساس ہونے لگا۔ لیکن وہ اپنی ہی دھن میں بولے جا رہا تھا:
“مثلا امنا چٹ کپڑی ہے۔ چٹ کپڑی آپ جانتے ہیں، ڈاکٹر؟ اونہوں! آپ نہیں جانتے۔ چٹ کپڑی سے اللہ محفوظ رکھے، ڈاکٹر۔ وہ سفید کپڑے پہنتی ہے۔ بظاہر سادہ، سجاوٹ سے بے نیاز۔ ویسے میک اپ ہوتا ہے۔ دکھتا نہیں۔ اہتمام ہوتا ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے جیسے سجاوٹ کا شعور ہی نہ ہو۔ معصومیت ہی معصومیت۔ مائی گاڈ!” اس نے جھرجھری لی “ڈاکٹر صاحب” وہ بولا “میری بیوی امنا چٹ کپڑی ہے اور مونا رنگیلی ہے رنگ رنگیلی۔ رنگ اس کی کمزوری ہے۔ گالوں پر رنگ، ہونٹوں پر رنگ، ناخنوں پر رنگ۔ کپڑے تو رنگ میں یوں ڈوبے ہوتے ہیں جیسے للاری کی دکان ہو۔ اگرچہ ان میں غضب کی ہم رنگی ہوتی ہے۔ یوں رنگ سے رنگ نکلتا ہے جیسے محفل میں بات سے بات نکلتی ہے۔ مونا کو سبز رنگ بہت پیارا ہے۔ ڈاکٹر، ایک روز جب میں امنا کے پاس تھا، لیکن تخیل میں نیچے سبزے کا فرش بچھا ہوا تھا، میں نے کہا: ڈارلنگ، آج ساون میں پپیہا نہیں بول رہا۔ یہ سن کر وہ دیر تک خاموش رہی۔ پھر وہ بولی: ہاں، ساون کے اندھے کو ہرا ہی دکھتا ہے۔ اس وقت مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
“اسی طرح ایک روز جب تخلیہ سرسبز تھا، لیکن تخیل دودھیا تو میں نے کہا: پیاری، تم تو بھورسمے ہو۔ اس پر سبزے کی بساط الٹ گئی۔ مجھے ہوش آیا تو دیکھا کہ سامنے مونا کھڑی ہے۔ منہ سوجا ہوا، آنکھیں شعلہ بار۔ بولی: چٹ کپڑی اس حد تک مسلط ہے؟
“حالانکہ میں بہت احتیاط کرتا ہوں، ڈاکٹر، لیکن ایسی لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں۔ پھر شکوک پھن اٹھاتے ہیں۔ تخیل کو قابو میں رکھنا میرے بس کی بات نہیں، ڈاکٹر۔ اکثر شراب سیخ پر اور کباب شیشے میں ٹھونستا رہتا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ کسی روز دونوں بساطیں الٹ جائیں گی۔ نہ سبزہ رہے گا نہ بھورسمے۔۔۔۔ پھر کیا ہو گا، ڈاکٹر؟ میرے لئے تو جینا بھی مشکل ہو جائے گا۔”
عجیب کیس تھا راحیل راو کا!
«
اب کی بار مین فرید آباد پروفیشنل دورے پر آیا تھا۔ میری آمد کی اطلاع اخباروں میں چھپ چکی تھی۔ میرے پاس صرف ڈیڑھ ایک گھنٹہ تھا۔ اس کے بعد وہی اپوائنٹمنٹس اور مریضوں کے ساتھ سٹنگز۔ مریضوں کے آنے سے پہلے میں تیاری میں مصروف تھا۔ لیکن دقت یہ تھی کہ پرانی یادیں پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھیں۔ راو میرے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا، اور اپنی رام کہانی سنائے جا رہا تھا۔
پرانی یادوں سے جان چھڑانے کے لئے میں باتھ روم میں گھس گیا، خود کو جھنجھوڑا، منہ ہاتھ دھویا، کپڑے بدلے اور باہر نکل آیا۔
عین اسی وقت دروازہ کھلا اور راو اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ وہیں دروازے میں رک گیا اور بڑے غمناک لہجے میں بولا “ڈاکٹر، دی گیم از اوور۔ جس کا مجھے ڈر تھا وہی ہوا۔”
“کیا ہوا” میں نے پوچھا۔
“بتانا بے کار ہے ڈاکٹر۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا، کچھ نہیں۔ دونوں ہی مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔”
“لیکن کیوں؟” میں نے پوچھا۔
“پردہ اٹھ گیا۔ بات کھل کر سامنے آ گئی۔” یہ کہہ کر وہ باہر جانے لگا۔ میں نے لپک کر اس کا بازو پکڑ لیا۔
“کچھ تو بتاو” میں نے کہا۔
اس نے ایک لمبی آہ بھری۔ تقریبا پندرہ دن ہوئے ہیں، میرا برتھ ڈے تھا۔ میں نے دونوں کے لئے تحفے خریدے۔ امنا کے لئے سفید آویزے، ہیرے کے۔ مونا کے لئے سبز زمرد کے۔ لیکن وہی غلطی کر بیٹھا۔ ہیرا مونا کو دے دیا، زمرد امنا کو۔
“پھر؟” میں نے پوچھا۔
“دفتر گیا تو میز پر مونا کا استغفا پڑا تھا۔ گھر گیا تو امنا کا رقعہ دھرا تھا: میں میکے جا رہی ہوں۔ مجھ سے ملنے کی کوشش نہ کریں۔” یہ کہہ کر راو بولا “ڈاکٹر، اس وقت میری حالت اچھی نہیں۔ میں پھر آوں گا۔”
راو کے جانے کے بعد ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے چونگا اٹھایا۔ کوئی خاتون بول رہی تھی “ڈاکٹر، میں آپ سے مشورہ کرنا چاہتی ہوں۔ ابھی آ جاوں کیا؟”
“آ جائیے” میں نے کہا۔
کچھ دیر بعد خاتون کمرے میں داخل ہوئی۔ میں اسے دیکھ کر بھونکچا رہ گیا۔ وہ بڑی حسین و جمیل عورت تھی۔ اس کا حسن منفرد تھا۔ اس میں شوخی نہیں تھی۔ بے چینی نہیں تھی۔ وہ حسن جو قیام میں پیدا ہوتا ہے، حرکت میں نہیں۔ ہر حرکت کے دوران وہ چند ایک قیام پیدا کرتی۔ جیسے متحرک تصویر میں اچانک ایک سٹل آ جائے۔ اس کا ہر قیام پوز پیدا کرتا۔ ایک تصویر بن جاتی۔ نئے قیام۔ انوکھے فریم۔ ایسے لگتا تھا جیسے اسے اپنے ہر قیام کی جاذبیت کا شعور ہو۔ لیکن اس کے انداز میں نمائشی عنصر نہ تھا۔ سادہ، نیچرل، ٹھہراو سے بھرپور۔
“تشریف رکھیے” میں نے کیس ہسٹری رجسٹر کھولتے ہوئے کہا۔
وہ بیٹھ گئی۔
“آپ کا نام؟” میں نے کیس کے کوائف لکھنے کے لئے پوچھا۔
” مسز راو” وہ بولی۔
“راو!” میں چونکا۔
“راحیل راو” وہ بولی۔
میں نے اس کا ازسرنو جائزہ لیا۔ اس کے بال لمبے تھے۔ سیدھے تھے۔ اور وہ واقعی چٹ کپڑی تھی۔
“کیا پرابلم ہے؟” میں نے پوچھا۔
“میں اپنے محبوب کی توجہ سے محروم ہو چکی ہوں، ڈاکٹر۔۔۔۔”
“کون محبوب ہے، آپ کا؟”
“میرا شوہر” وہ بولی۔
“شادی کب ہوئی تھی؟”
“تقریبا پانچ سال ہوئے۔”
“پہلے توجہ حاصل تھی کیا؟”
“بہت” وہ بولی “پانچ برس میرے شوہر نے مجھے آنکھوں پر بٹھائے رکھا۔ اتنی توجہ دی کہ کسی مرد نے عورت کو نہ دی ہو گی۔”
“اب کیا کوئی اور عورت۔۔۔۔؟”
اس نے سر نفی میں ہلا دیا “راو کی زندگی میں کوئی اور عورت نہیں آئی۔۔۔۔ بلکہ ایک عورت جو پہلے اس کی توجہ میں تھی، اب نہیں رہی۔”
“جب وہ تھی تو توجہ آپ پر مرکوز تھی۔ اب وہ نہیں رہی تو آپ توجہ سے محروم ہو گئی ہیں۔ عجیب بات ہےآ”
“جی” وہ بولی۔
“الٹی سی بات ہے۔”
“بالکل الٹی” وہ مسکرائی۔
“جب وہ تھی تو اس کے وجود کا آپ کو علم تھا؟”
“شک سا تھا۔ یقین نہیں آتا تھا۔”
“کوائف کیا ہیں؟”
“عجیب سے کوائف تھے، ڈاکٹر” وہ بولی “سارا سن راو مجھے آنکھوں پر بٹھائے رہتے۔ میری ہر حرکت پر یوں حیرت سے میری طرف دیکھتے جیسے مجھ میں کوئی نیا گن دریافت کیا ہو۔ اکثر مجھ سے کہتے: امنا، یہ پوز جو تم نے ابھی ابھی بنایا تھا، پھر بناو نا” وہ مسکرائی۔ کچھ دیر کے لئے رکی۔ اس کی آنکھوں میں تارے پھوٹ رہے تھے۔ پھر وہ بولی ”جب وہ میرے ساتھ تخلئیے میں ہوتے تو رنگ ہی بدل جاتا۔ وہ کھو جاتے۔ حتی کہ انہیں شعور ہی نہ رہتا کہ وہ میرے پاس ہیں۔ اس قدر بیگانہ ہو جاتے جیسے جیسے”۔ اس کی آواز بھرا گئی۔
“عجیب سا کیس ہے” میں نے مدھم آواز میں کہا۔
“ڈاکٹر” وہ بولی “میرے لئے محبت ایک ماحول ہے، توجہ بھرا ماحول۔ ایک ساتھ ہے۔ قرب ہے۔ لیکن اس میں تخلئیہ اہم نہیں۔ تخلئیے کی آرزو نہیں۔ صرف گوارا ہے۔”
“میں سمجھتا ہوں” میں نے کہا “کیا آپ کے شوہر کے لئے تخلئیہ اہم ہے؟”
“ہاں” وہ سوچ کر بولی “خاصا اہم ہے۔”
“کیا اسی وجہ سے آپ کے خاوند نے دوسری خاتون سے تعلقات پیدا کئے تھے؟ میرا مطلب ہے، شاید انہوں نے سوچا ہو کہ توجہ آپ کی، تخلئیہ اس کا۔”
“شاید” وہ مسکرائی “وہ عورت یقینا تخلئیہ پسند تھی۔”
“آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ راو کے تعلقات ایک اور خاتون سے بھی ہیں؟”
“مجھے ڈاکٹر شوکت نے بتایا تھا۔ دراصل میرے شوہر سے ایک ایسی بات سرزد ہو گئی جس سے میرا شک بہت تقویت پکڑ گیا اور میں اس سے روٹھ کر ماں باپ کے گھر چلی گئی۔ ایک رقعہ چھوڑ آئی۔ لکھا تھا: مجھے پتا چل گیا ہے۔ میں واپس نہیں آوں گی۔ آپ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کریں۔”
“اس کے بعد راو نے ڈاکٹر شوکت کو سب کچھ بتا دیا؟” میں نے پوچھا۔
“ڈاکٹر شوکت مجھ سے ملے۔ انہوں نے راو کا بھید مجھے بتا دیا اور کہا کہ راو کی حالت اچھی نہیں۔ وہ تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ممکن ہے خود کشی کی کوشش کرے۔ یہ سن کر میں ڈر گئی اور واپس آ گئی۔ چونکہ مجھے راو سے بے پناہ محبت ہے، میرے لئے ان سے دور رہنا بے حد مشکل ہے۔ ڈاکٹر میں یہاں آئی تو پتا چلا کہ راو کی سیکرٹری بھی استغفا دے کر جا چکی ہے۔”
“اس بات پر آپ کو بہت خوشی ہوئی ہو گی؟”
“بالکل نہیں، ڈاکٹر” وہ بولی “بالکل نہیں۔ الٹا میں سخت گھبرا گئی۔ راو کا بھید جاننے کے بعد میں مونا کی اہمیت کو پورے طور پر سمجھ چکی تھی۔”
“راو کا کیا بھید تھا؟” میں نے انجان بن کر پوچھا۔
وہ جھینپ گئی۔ چند ایک ساعت کے بعد بولی “جب راو تخلئیے میں پاس ہوتے تو وہ تخیل میں سمجھتے کہ مونا کے پاس ہیں۔ جب مونا کے پاس ہوتے تو تخیل میں مجھے دیکھتے۔۔۔۔ یہ جان کر میں نے سمجھا کہ مونا کا ہونا سخت ضروری ہے۔ میں نے مونا کو ڈھونڈنے کی کوشش شروع کی۔ سارا گلبرگ چھان مارا۔”
“لیکن کیوں؟” میں نے پوچھا۔
“اس لئے کہ مونا کے چلے جانے کے بعد راو کے تخیل میں مونا ہی مونا رہ گئی تھی۔ میں معدوم ہ چکی تھی۔ اس لئے خود کو پھر سے قائم کرنے کے لئے مونا کو واپس لانا ضروری تھا۔”
“تو کیا مونا مل گئی؟”
“ہاں، مل گئی۔ گلبرگ کے ایک ایسے گھر سے ملی جس کی ریپوٹیشن اچھی نہ تھی۔ میں نے بڑی مشکل سے اس واپس آنے پر رضامند کر لیا۔ لیکن بدقسمتی سے جب وہ کار میں یہاں آ رہی تھی تو ایکسیڈینٹ ہو گیا، اور وہ جانبر نہ ہو سکی۔”
“کیا راو کو اس کا علم ہے؟”
“ہاں، علم ہے” وہ بولی “لیکن اس کے باوجود مونا اس کے تخیل پر سوار ہے۔ وہ مر کر راو کے تخیل پر چھا چکی ہے اور میں ان کی توجہ سے معدوم ہو چکی ہوں، محروم ہو چکی ہوں۔”
“ہوں!” میں نے کہا “لیکن اب آپ چاہتی کیا ہیں؟”
“میں جینا چاہتی ہوں، ڈاکٹر۔ ان کی توجہ میرے لئے زندگی ہے۔” وہ بولی “راو کی توجہ کے بغیر میں جی نہیں سکتی۔ کیا آپ راو کا علاج کریں گے؟ ان کی توجہ لوٹ آئے۔ ہم سٹنگز کے لئے لاہور آ جائیں گے۔” کچھ دیر وہ میری طرف دیکھتی رہی۔
“اس کی ضرورت نہیں” میں نے کہا۔
“کیا آپ کچھ نہیں کر سکتے؟” اس نے حسرت بھرے انداز میں مجھ سے اپیل کی۔
“میں نہیں، آپ کر سکتی ہیں” میں نے جواب دیا۔
“میں؟” اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔
“ہاں، آپ” میں نے جواب دیا “راو کے لئے آپ ایک نئی سیکرٹری نہیں ڈھونڈ سکتیں کیا؟”
“نئی سیکرٹری؟” اس نے دہرایا۔
“جو تخلئیے کی شوقین ہو” میں نے کہا “گلبرگ کے اسی گھر کی کوئی لڑکی جہاں مونا ملی تھی۔ راو کی توجہ حاصل کرنے کے لئے یہی ایک طریقہ ہے۔”
“کوئی ایک مونا” وہ چیخی۔
میں نے اس کی طرف دیکھا “ہاں، کوئی ایک مونا۔”
وہ ایک جاذب نگاہ پوز میں کھڑی تھی۔ چہرہ خوشی سے گلنار ہو رہا تھا۔ آنکھوں میں مدھ بھری پھوار اڑ رہی تھی!