بن روئے آنسو.. تبصرہ: صبا منیر
فرحت اشتیاق ایک بہترین لکھاری ھونے کے ناتے پہچانی جاتی ھیں..
اردو ڈائجسٹ میں قسط وار افسانے شائع ھوتے رھے پھر ناول چھپنے لگے اور اسی ناول پر ڈرامہ اور فلم بننے کے بعد انکی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ھوتا گیا.
بن روئے آنسو ایک رومانوی کہانی ھے جو دو بہنوں کے گرد گھومتی ھے ثمن اور صبا…اور ان کا کزن ارتضی….
صبا جو کہ ماں باپ کے ساتھ ساتھ دادی کی بے انتہا لاڈلی دکھائی گئ ھے اور کزن ارتضی جو کہ اسکے خوب لاڈ اٹھاتا ھے صبا اسکو پسند کرنے لگتی ھے اور اس خوش فہمی میں مبتلا رھتی ھے کہ وہ بھی اسکو پسند کرتا ھے لہذا اسکے خیالوں میں کھوئی رھتی ھے اسکے برعکس کزن صاحب اسکی بہن ثمن کو پسند کرتا ھے جو کہ بہن تو صبا کی ھے لیکن چچا نے لے کر پالی ھوئی ھے اور چچا کے ساتھ امریکہ میں رھتی ھے اور ارتضی کام کے سلسلے میں امریکہ جاتا ھے تو ثمن کو دل دے بیٹھتا ھے اب تینوں کے بیچ تکون جنم لیتی ھے صبا اپنی دھن میں مست رھنے والی لڑکی جس کے تصور میں بھی نہیں کہ اسکی کوئی خواہش ھو اور پوری نہ ھو سکے.. ایک حادثے کی وجہ سے ثمن واپس ماں باپ کے گھر آ جاتی ھے اور ارتضی کے ساتھ اسکا رشتہ طے ھو جاتا ھے یہیں سے رقابت حسد اور نفرت کی شروعات ھوتی ھے صبا بہن سے شدید نفرت کرنے لگتی ھے اس کہانی میں ایک بات یہ دیکھنے میں آئی کہ صبا کے اندر جو حسد پلتا ھے اسکی وجہ سے ثمن کی شادی شدہ زندگی کو صبا کی نظر لگ جاتی ھے یہاں تک کہ وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ھے اس کہانی میں بتایا گیا ھے کہ خواھش اکثر ایسے رنگ میں بھی پوری ھوتی ھے کہ آپکو اپنی خواہش جرم لگنے لگتی ھے کیونکہ ثمن کے انتقال کے بعد اسکا رشتہ ارتضی سے طے ھو جاتا ھے صبا سخت ناراضگی اور غصّے کا اظہار کرتی ھے اور پچھتاوے کا شکار ھو جاتی ھے کیونکہ اس نے کسی وقت اپنی بہن کو بہت بد دعا بھی دی ھوتی ھے وہ سخت تناؤ کا شکار ھوتی ھے اسکو لگتا ھے اسکی بد دعا لگ گئ ھے اسکی بہن کو رائٹر نے یہ بتانے کی کوشش کی ھے کہ بعض اوقات بے دھیانی اور جزبات میں آ کر جو الفاظ منہ سے نکل جاتے ھیں اکثر قبول بھی ھو جاتے ھیں اور پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ھوتا صبا کے انکار کے باوجود اسکی شادی ارتضی سے کر دی جاتی اب ثمن کے گھر میں صبا کو بہن کی بہت سی باتیں یاد آتی ھیں جو اسکی بے چینی کا باعث بنتی ھیں…..
کہانی کا اختتام بہت خوبصورتی سے کیا گیا ھے…
ثمن کی تصویر کے پاس کھڑی ھو کر صبا کہتی ھے..
“مجھے پتہ ھے تم مجھ سے ناراض ھو پھر بھی تم سے کچھ کہنا چاھتی ھوں. میں ارتضی سے محبت کرتی ھوں مگر میں تمہارے بیٹے اور ارتضی پر اپنا کوئی حق نہیں سمجھتی یہ میرے پاس تمہاری امانت ھیں. اگر قیامت کے دن ایسا کرنا ھم انسانوں کے بس میں ھوا تو میں تمہاری یہ امانت خوشی خوشی تمہیں لوٹا دوں
گی “
اور پورا ناول پڑھنے کے بعد اس آخری پیرا گراف نے میرا دل موہ لیا.. کتنی خوبصورتی سے اختتام کیا ھے اور کیسے سرخرو ھو کر صبا ارتضی کی زندگی میں داخل ھو جاتی ھے.