ممتاز مفتی ، عطا الحق قاسمی
میں بہت دنوں سے ممتاز مفتی کی موت کا انتظار کر رہا تھا کہ اس پر کالم لکھ سکوں لیکن اتنے دیں گزرنے کے بعد بھی میری نظروں میں مرحوم ممتاز مفتی کی کوئی تصویر نہیں اُبھر سکی۔ کفن اوڑھا ہو، آنکھیں موندی ہوں، نتھنوں میں روئی ٹھنسی ہو اور وہ بے حس و حرکت پڑے ہوں میں جب ہوں۔ میں جب بھی اپنے ذہن اس طرح کی کوئی تصویر بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مفتی صاحب اگلے ہہ لمحے اٹھ کع بیٹھ جاتے ہیں اور میرے کاندھے پر دوہتڑ مار کر کہتے ہیں “ہور سنا فیر تیرے ادبی حلقے کیہہ کہندے نیں” چنانچہ مفتی صاحب کی اس طرح کی حرکت کی وجہ سے ہر دفعہ ان کی وفات پر کالم لکھتے لکھتے رہ جاتا ہوں۔ لیکن میں نے سوچا کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی اگر مفتی صاحب بات ہونے کا نام نہیں لیتے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں ان پر کالم نہ لکھوں؟ اور مفتی صاحب کون سے ایسے ثقہ روای تھے کہ ان کی بات پر اعتبار کروں اور یہ جو اخبارات کی سرخیاں اور کالم نگار ان کی موت کا اعلان کرتے پھرتے ہیں، انہیں جھوٹا قرار دوں، سو میں نے کاغذ قلم سنبھال لیا اور مفتی صاحب کی وفات پر کالم لکھنے بیٹھ گیا ہوں، امید ہے مفتی صاحب میری اس بے تکلفی کو معاف فرمائیں گے۔
میں زندگی میں جب کبھی ممتاز مفتی کے بارے میں سوچتا تھا تو وہ اکیلے میرے ذہن میں کبھی نہیں آتے تھے تھے بلکہ ان کے ساتھ قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، جمیل الدین عالی، بانو قدسیہ، ابن انشاء، احمد بشیر، ابدال بیلا، مسعود قریشی، عمر، بکری (معذرت کے ساتھ کہ دوستوں کے اس گروپ میں ان کا نام یہی تھا) اور خواتین کی ایک لمبی قطار میرے ذہن میں گھوم جاتی تھی اور یہ سطور لکھتے وقت بھی یہ سب خواتین و حضرات ایک ہالے کی صورت میں مجھے نظر آ رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مفتی صاحب نے نوے سال کی عمر میں انتقال کیا اور وہ وفات سے تین دن پہلے تک علیل ہونے کے باوجود، پوری طرح ہوش و حواس میں تھے، گوپیوں کے جھرمٹ کے جھرمٹ اپنے اس کرشن کنہیا کے درشن کو آتے تھے اور کنہیا دونوں ہاتھوں سے ان کی محبتیں سمیٹتا تھا۔ ان گوپیوں میں اٹھارہ سال اسی سال کی گوپیاں شامل تھیں اور جو اس گرو کے چیلے تھے۔ ان میں ابدال بیلا سے منشا یاد اور منشا یاد سے لاٹھی ٹیکنے کی عمر کے سب ہی لوگ شامل تھے۔ مفتی صاحب کے پاس خدا جانے کیا گیدڑ سنگھی تھی جو ان سے ملتا تھا ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ اپنے عہد کے اس بڑے افسانہ نگار کی کچھ اداؤں کا تو مجھے علم ہے جن پر لوگ مر مٹتے تھے۔ ایک ان کی گفتگو کا افسانوی انداز اور دوسرا ہمدردی، غمگساری اور اپنے عہد کے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی۔ وہ کب گفتگو کرتے تھے تو ایسے لگتا تھا جیسے ایک داستان کو آگ کے الاؤ کے گرد بیٹھا کوئی راستان گو بیان کر رہا ہے اور اسے داستان پر اس درجہ قدرت حاصل ہے کہ سننے والے آنکھ بھی نہہں جھپک پاتے۔
اس کے علاوہ اپنے ملنے والوں کے دکھ درد کو جس طرح اپنی ذات کا حصہ بناتے تھے۔ وہ بھی ان کہ محبوبیت میں اضافے کا سبب بنتا تھا اور جہاں تک لکھنے والوں خصوصاً نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا تعلق تھا، مفتی صاحب اس میں “اخیر” کر دیتے تھے۔ وہ نہایت معمولی لکھنے والوں کو بھی اپنی گفتگو سے اتنا حوصلہ دیتے کہ وہ اپنی ناکامیوں میں سے کامیابی کا راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ مجھے جب بھی ملتے ہمیشہ اصرار کرتے کہ تم جو اپنے کالموں میں افسانے بھر دیتے ہو، باقاعدہ افسانے کیوں نہیں لکھتے۔ انہوں نے مجھے زیادہ ناول نگاری پر اکسایا اور اتنا اکسایا کہ میں اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو گیا۔ مگر اخباروں کی سرخیاں بتاتی ہیں کہ مفتی صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ اگر واقعی فوت ہو گئے ہیں تو میں اگر ناول لکھنے میں کامیاب بھی ہو گیا تو اس پر مجھے “حوصلہ افزائی کا انعام” کون دے گا؟
مفتی صاحب اپنی تمام تر وسیع القلبی اور کشادہ دلی کے باوجود کبھی کبھار کسی بات پر رنجیدہ بھی ہو جاتے تھے مگر وہ جو مومن کی نشانی ہے کہ اس کا دل بھی فوراً صاف ہو جاتا ہے تو یہ نشانی مفتی صاحب میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔ چناچہ زیادہ عرصہ کسی سے ناراض نہیں رہ سکتے تھے ، ایک دفعہ احمد ندیم قاسمی صاحب سے ناراض ہوئے اور اپنی اس ناراضگی کا اظہار ایک خط میں بھی کیا۔ مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد ان کا دل شیشے کی طرح صاف ہو گیا۔ چناچہ انہوں نے اس ضمن میں ندیم صاحب کو جو خط لکھا، وہ ان کی اس وسیع القلبی اور کشادہ دلی کا منظر ہے جو ان کی ذات کا لازمی حصہ تھی۔
“علی پور کا ایلی” ممتاز مفتی کی شہکار کتاب ہے۔ “لبیک” بھی ان کا بالکل منفرد قسم کا افسانہ ہے۔ ان کی ان تحریروں اور ان کی گفتگو میں کوئی تفاوت نہیں تھا۔ دونوں چونکانے والی، دونوں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرنے والی تھیں اور وہ ہمیشہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب کرے۔ قدرت اللہ شہاب کے اولیائے قصے اور اس طرح کے دوسرے واقعات کا بیان یقیناً ان کے تجربے کا حصہ ہوں گے لیکن مجھے ہمیشہ اس میں چونکانے کا علم زیادہ نمایاں نظر آیا۔ وہ بظاہر جو کہتے رہے بین السطور بات اس سے بالکل الٹ ہوتی تھی، مثلآ جب وہ کسی کی برائی بیان کرتے، اس برائی میں سے اچھل اچھل کر باہر آ رہی ہوتی اور سب سے زیادہ “برائیاں”وہ بانو قدسیہ کی بیان کرتے تھے۔ اشفاق احمد کا سٹائل بھی یہی ہے چناچہ میں مفتی صاحب کے ظاہری لفظوں پر کبھی اعتبار نہیں کرتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی موت پر بھی تا حال اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہوں۔میں سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ زندہ و تابندہ شخص واقعی مر گیا ہے یا ایک دفعہ پھر لوگوں کو چونکانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ص 188-190