موت کی کتاب خالد جاوید
ناول……… موت کی کتاب
تبصرہ……. کوثراسلام
اگر آپ ایسی کتاب چاہتے ہیں جسے آپ پڑھنے کی بجائے محسوس کریں.. اپنے اندر جذب کریں تو موت کی کتاب آپ کے لیے ہے.
مصنف کو گرگٹہ تل ماس کے کھنڈرات میں اس جگہ جہاں کبھی پاگل خانہ تھا ایک مجلد ڈائری ملی جو کم و بیش دو سو سال پرانی تھی.
ڈائری ایک ایسے شخص کی تھی جس نے اپنے ماں باپ کو ہمیشہ لڑتے دیکھا. جب وہ پانچ سال کا تھا تو اس کے باپ نے اس کے ہاتھ سے مونگ پھلیاں گرا کر اسے مارا اس لیے کہ مونگ پھلیوں سے اسے چڑ تھی. اس دن سے اسے اپنے باپ سے نفرت ہو گئی. اس نے کئی بار اپنے باپ کو قتل کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا. آخر اسے پاگل قرار دے کر پاگل خانے بھیجا گیا.
خالد صاحب کی تحریر بہت کھردری اور نوکیلی ہوتی ہے. علامات کا سہارا بہت زیادہ لیتے ہیں.
اس ناول میں ان لوگوں کی نفسیات کھل کر بیان کی گئی ہے جن میں عمل کا فقدان ہوتا ہے.
ناول کا کردار خود کشی کرنا چاہتا ہے خود کشی اسے سب سے زیادہ عزیز ہے.
وہ کہتا ہے. میری پتلون کی جیب میں بیٹھی خود کشی بے چین ہو کر میرے کان میں زیر لب کہتی ہے “چلو زہر کھاتے ہیں”
وہ خود کشی پر آمادہ ہے مگر پہلے باپ کو قتل کرنا چاہتا ہے اور آخر تک نہ وہ خود کشی کرتا ہے نہ باپ کو قتل کرتا ہے اس لیے کہ اس میں عمل کا فقدان ہے.
دنیا کے بارے میں اس کا نظریہ ہے
“یہ جو دنیا کے بارے میں اتنی من گھڑت کہانیاں سنائی جاتی ہیں ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں. یہاں موجود انسانوں کا جم غفیر رشتے طبقاتی کشمکش سماجی نا انصافیاں جنگ و جدل محبتیں نفرتیں دہشت گردیاں اور نہ جانے کیا کیا الم غلم… یہ سب ازل سے ویران کرہ ارض پر کسی دوسرے سیارے کے انسانوں کے دیکھے گئے خواب ہیں یہ اس دنیا میں لٹکتی ہوئی الٹی تصویریں ہیں.
جسم کے بارے میں وہ کہتا ہے
جسم ایک بھیانک تاریک اور پراسرار بل کے سوا کچھ نہیں آدمی اس میں رہتا ہے اور اس لیے اتنا غیر محفوظ ہے سب کچھ اس کے اندر گم ہو جاتا ہے محبت بھی آخر کار ایک دن جسم کے اسی اندھیرے میں جا کر غائب ہو گی کسی بدنصیب چوہیا کی مانند جو اپنے بل میں بیمار ہو کر پھر کبھی باہر نہ آ سکے.
انسان کی حقیقت وہ کچھ اس طرح بیان کرتا ہے
“انسان چھوٹی آنت یا بڑی آنت کے سوا اور کیا ہے اگر وہ ان مکروہات سے الگ کوئی شے ہے تو مجھے اس کا علم نہیں”
ناول کے کردار کو ہر چیز سے نفرت ہے نفرت اس کی نظر میں ایک پراسرار علم ہے وہ کہتا ہے
“نفرت ایک پیچیدہ اور پراسرار علم ہے تنتر منتر اور سفلی علم کی مانند اس کے اصول و ضوابط بھی بڑے الجھے ہوئے ہیں مگر ایک بار قاعدے کے ساتھ سمجھ لینے کے بعد یہ ایک ایسی ریاضی بن جاتا ہے جس کے فارمولوں کے ذریعے نفسیات بشریات اور عمرانیات ہی کی نہیں بلکہ دنیا نام کی گیند کے اندر بھری ہوئی ساری ہوا نکل جاتی ہے…”
وہ باتیں جو عموما ہم دوسروں سے بلکہ خود سے بھی چھپاتے ہیں خالد صاحب ہمیں ان سے آنکھ ملانے کا گر سکھاتے ہیں.
محبت ہوس دنیا اور انسانی نفسیات اس ناول میں کھل کر بیان کیے گئے ہیں.
خالد صاحب فلسفے کے استاد ہیں اور ناول میں اکثر چیزیں انہوں نے بطور علامت استعمال کی ہیں.