کتابوں پر تبصرے

تذکرہ غوثیہ… تبصرہ: ملک اصغر خان

تذکرہ_غوثیہ

یہ کتاب جس کا نام تذکرہ غوثیہ ہے چوبیس سال سے میری بیڈ بک بنی ہوئی ہے۔سب سے پہلے میں نے اس کا نام ممتاز مفتی کی کسی کتاب میں پڑھا مفتی صاحب نے اس کتاب کی بہت تعریف کی تھی۔مجھے مفتی پسند تھا اور ہے میں نے سوچا جو کتاب مفتی کو پسند ہو وہ ضرور دوسری کتابوں سے مختلف ہوگی۔کتاب پڑھنی شروع کی تو جیسے گردوپیش کی کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔کتاب کیا ہے ایک جہان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔تصوف سے دلچسپی کی وجہ سے یہ کتاب میرے لیے ایک درس گاہ سے کم نہیں۔تذکرہ غوثیہ اصل میں ایک بزرگ سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ کی سوانح حیات ہے جو ان کے خلیفہ خاص مولانا شاہ گل حسن رحمتہ اللہ علیہ نے لکھی ہے اور اس کی تزئین اور ترتیب اپنے وقت کے ایک نابغہ روزگار شاعر اور اردو زبان کے ایک بڑے نام محمد اسماعیل میرٹھی رحمتہ اللہ علیہ نے کی ہے۔
تذکرہ غوثیہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دیگر بزرگوں کے سوانح حیات سے قطعی مختلف ہے۔عام طور پر کسی بزرگ کی سوانح حیات میں اس بزرگ کو ڈرائی کلین کرکے اور کلف لگا کر ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ بزرگ کوئی بندہ بشر نہ ہو کوئی اور مخلوق ہو۔اس بزرگ کی کرامات خرق عادات اور مافوق الفطرت باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔تذکرہ غوثیہ میں آپ کو ایسی کوئی بات نہیں ملے گی صاحب تذکرہ آپ کو ایک عام انسان کی طرح چلتا پھرتا نظر آئے گا۔یہ کتاب دراصل چھوٹے چھوٹے واقعات پر مشتمل ہے اور ان واقعات سے سے صاحب تذکرہ کی شخصیت ابھرتی ہے۔غوث علی شاہ کے سفر اور دوران سفر پیش آنے والے دلچسپ واقعات مختلف
بزرگوں سے ان کی ملاقاتوں کا احوال انتہائی دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔تصوف کے مختلف سلاسل کی تعلیمات ذکر شغل مراقبہ ان کا طریقہ اور ان سلاسل کے بزرگوں کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے۔صاحب تذکرہ کی مرزا غالب سے ملاقات ہندو جوگیوں رشیوں سوامیوں یوگیوں سے ملاقات اور ان کے اپنے طریقے سے مختلف مشقوں مراقبوں اور اذکار کا طریقہ بھی کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔صاحب تذکرہ کے ایک عشق کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ان کو پینتالیس سال کی عمر میں ہوا۔
اس کتاب کے بہت سے واقعات زبان زد عام بن چکے ہیں۔اردو زبان کی چاشنی لئے ہوئے یہ کتاب ادبی لحاظ سے اردو کی بہترین کتاب ہے۔ممتاز مفتی نے اس کتاب کے بہت سے واقعات کا اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔اشفاق احمد کے کچھ ڈرامے بھی تذکرہ غوثیہ کے واقعات سے ماخوذ ہیں۔چوبیس سال سے میں اس کتاب کے سحر سے نہیں نکل سکا یہ کتاب ہر وقت میرے پاس موجود ہوتی ہے۔اور بار پڑھنے کے بعد نئے سرے سے تازگی کا احساس ہوتا ہے گویا ایک دبستان ہے جو ڈیڑھ صدی گزرنے کے بعد بھی اپنی مقبولیت اور حسن بیان کی وجہ سے اپنا ایک خاص مقام بنائے ہوئے ہے۔ تذکرہ غوثیہ ادبی ذوق اور تصوف سے شغف رکھنے والوں کے لئے ایک بہترین کتاب ہے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button