چالیس چراغ عشق کے ، شہزاد مغل
یہ ناول ایک ترک مصنفہ جن کا نام Elif Shafakہے کا لکھا ہوا ناول ہے۔۔۔۔۔
اس ناول میں لکھے گۓ چالیس اصول دراصل شاہ شمس تبریز کے اقوال ہیں۔۔۔جنہیں مصنف نے ایک بےخودی کے دھاگے میں پرو کر چالیس موتیوں کی مالا تیار کی اور ناول کی صورت ہم تک پہنچایا۔۔۔۔۔۔
میں نے جب اس ناول کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے سمجھ آئ کہ انسان جسا خود ہوتا ہے ویسا ہی اسے اجر ملتا ہے۔۔۔یعنی کہ نیک نیتی پر بہت زور دیا ہے۔۔۔۔۔مطالعہ کا سفر جب کچھ آگے بڑھایا تو ایک چیز جس نے چونکا دیا وہ یہ تھی کہ خدا کو ڈھونڈنا مقصود ہو تو اس کیلیے مندر،مسجد یا گرجا جانے کی شرط نہیں ہے بلکہ وہ تو ہر چیز میں نظر آتا ہے۔۔۔۔بس اپنا دل صاف رکھنا شرطِ اوؔل ہے۔۔۔۔
اس سفر کے دوران مجھے ایک سڑک کنارے لگا بورڈ نظر آیا جس پر لکھا تھا کہ”ایک انسان جو معاشرے میں عزت چاہتا ہو اس کیلیے سب سے ضروری چیز اپنی زبان پر کنٹرول ہے“یہ بات میرے دل میں گھر کر گئ۔۔۔۔
ان تمام باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ انسان با اختیار ہے اپنے سوچ میں۔۔۔۔انسان با اختیار ہے اپنے معاملات میں۔۔۔۔انسان با اختیار ہے اپنے کردار میں۔۔۔۔۔
یہ وہ باتیں تھیں جنہوں نے میری سوچ کو ایک نیا موڑ دیا۔۔۔۔۔۔
لیکن ایک بات جو مجھے بلکل بھی ہضم نہیں ہوی وہ ہے اس ناول میں عقل کو استعمال نا کرنے پر بہت زور دیا ہے۔۔۔۔انسان جسے خدا نے اشرف المخلوقات کے لقب سے نوازہ ہے اور یہی عقل ہی ہے جو ہمیں جانوروں سے افضل کرتی ہے تو اس کے استعمال سے ممانعت کیوں؟
خانقاہی نظام کا بہت پرچار نظر آیا اور جیسا کہ ہمیشہ سے خانقاہی نظام عقل پر دل کو فوقیت دیتے آۓ ہیں اسی طرح سے اس ناول میں بھی دل کو عقل پر فوقیت دی گئ ہے۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے عقل ہی واحد چیز ہے جس نے آج دنیا کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ایک بٹن دبانے سے ہر کام ہو رہا ہے۔
یہ ناول مجھے حقیقت سے بہت دور نظر آیا۔۔۔۔فقط نظریاتی طور پر لکھا گیا یہ ناول دل کو بہت ترجیح دیتا نظر آیا۔۔۔۔
اور یہ ناول پڑھتے ہوے مجھے ایک جملہ یاد آیا کہ”جس قوم میں تعلیم کی اہمیت نا ہو وہاں قصے کہانیاں مزہب بن جاتے ہیں“
یہ میرا نظریہ ہے اس ناول کے بارے میں۔۔۔ہر کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔