کتاب : تلاش
باب 9 : کریش سولائزیشن
ٹرانسکرپشن : محمد مبشر اعوان
ثواب کماؤ
ہمارے رہبروں نے ہمیشہ کنڈیشن (condition) کر دیا ہے کہ یہ زندگی فانی ہے، بے ہودہ ہے، بکواس ہے، سراب ہے۔ اصلی زندگی وہ ہے جو آنے والی ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آنے والی زندگی تو جزا و سزا ہے۔ وہ ایک پھول ہے، جو موجودہ زندگی کے بونے پر لگے گا۔ تمام تر اہمیت تو موجودہ زندگی کی ہے۔ ہمارے رہبروں نے اسلام کو تجارت بنا رکھا ہے۔ یہاں ایک نماز پڑھو، وہاں 70 نمازوں کا ثواب ملے گا۔ یہاں بھوکے کو ایک روٹی کھلاؤ، وہاں اس کے عوض دس روٹیاں ملیں گی۔ مولوی صاحب اپنے خطبے میں اس مسئلے پر روشنی ڈال رہے تھے۔ انھوں نے اس حوالے سے ایک قصہ سنایا۔
کہنے لگے ، ” ایک روز مسجد میں ایک بزرگ مہمان آ گئے۔ اس وقت دسترخوان میں صرف دو روٹیاں تھیں جو ہم نے پیش کر دیں۔ کھانے لگے تو دروازہ بجا۔ حجرہ کے باہر ایک بھوکا مسافر کھڑا تھا۔ بزرگ نے ایک روٹی اسے دے دی اور دسترخوان لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا۔ کچھ دیر کے بعد دروازہ بجا۔ ہم نے پوچھا، کون ہے بھئی؟ آواز آئی۔ ختم کی روٹیاں لایا ہوں۔
بزرگ نے پوچھا ، کتنی ہیں؟
آواز آئی کہ جناب ! پندرہ روٹیاں ہیں۔
بزرگ نے کہا: نہیں بھائی! یہ روٹیاں ہماری نہیں، لے جاؤ۔
کچھ دیر کے بعد پھر دروازہ بجا اور آواز آئی : جناب چوہدری صاحب نے پانچ روٹیاں بھیجی ہیں۔
بزرگ نے کہا: نہیں میاں ! یہ ہماری نہیں، کسی حاجت مند کو دے دو۔
کچھ دیر کے بعد پھر دروازہ بجا اور آواز آئی کہ جناب شادی والے گھر نے روٹیاں بھیجی ہیں۔
بزرگ نے پوچھا: کتنی ہیں؟
جواب آیا کہ جناب دس روٹیاں ہیں۔
بزرگ بولے : ٹھیک ہے! لے آؤ، یہ ہماری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک روٹی خیرات کرو گے تو اس کے عوض دس ملیں گی۔”