کتاب : تلاش
باب 12 : دشمنی یا خوف
ٹرانسکرپشن: سحرش حنیف
مادیت کا گرداب
اہلِ مغرب نے اکنامکس کو اپنا خدا بنا لیا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں اکنامکس حاوی ہے۔ انھیں “اسٹینڈرڈ آف لونگ” کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ معیارِ زندگی اونچا کرو، اور اونچا، اور اونچا اور اسٹینڈرڈ آف لونگ کیا ہے؟ چیزیں، چیزیں، چیزیں۔ فرد کی حیثیت چیزوں سے ناپی جاتی ہے۔ صرف فرد کی بات نہیں، ملکوں اور قوموں کی حیثیت اور اہمیت “اسٹینڈرڈ آف لونگ” سے ماپی جاتی ہے۔ لمبے چوڑے شمارے مرتب کیے جاتے ہیں، پھر باقاعدگی سے شائع کیے جاتے ہیں کہ فلاں ملک کی کیا حیثیت ہے، اس کے افراد کی “پر کیپٹا انکم” کیا ہے، ان کے پاس کتنے ریڈیو سیٹ، کتنے ٹیلی ویژن سیٹ ہیں، کتنی کاریں ہیں؟۔ جن ملکوں کے افرد کے پاس زیادہ چیزیں ہیں، وہ “ایڈوانسڈ” یا ترقی یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔ جن کے پاس کم چیزیں ہیں، وہ “بیک ورڈ” سمجھے جاتے ہیں یا ان کا دل رکھنے کے لیے انھیں ترقی پذیر کہا جاتا ہے۔ بہرحال ترقی کا انسان یا افراد سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی چیزوں سے تعلق ہے، اس کی آمدنی سے تعلق ہے، دولت سے تعلق ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک زندگی کا مقصد “اکنامک ڈویلپمنٹ” ہے، ہمدردی، قربانی یا خدمت اور محبت نہیں۔ اگر یہ انسانی اوصاف ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت رکھتے ہیں تو صرف اکنامک ڈویلپمنٹ” کے حوالے سے۔ اگر وہ اکنامک ترقی میں مدد دیتے ہوں تو، ورنہ ذاتی طور پر انھیں کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ کیا ہے؟