کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا ، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : عمارہ مہدی
شکایات ہی شکایات
جو بھی آتا ہے، اللہ کی شکایت کرتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گلے شکوے۔ کوئی کھل کر شکایت کا اظہار کرتا پے۔ کوئی دبے دبے الفاظ میں، کوئی صاف صاف کہہ دیتا ہے۔کوئی کہے بغیر جتا دیتا ہے، کوئی “شکر” ہے کے پردے میں اپنی شکایت کو چھپا دیتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔
جب کھینچ کے آہ سرد
کہتا ہے کوئی بندہ
جس حال میں بھی رکھے
صد شکر ہے اللہ کا
میں سوچنے لگتا ہوں
یہ شکر کیا اس نے
یا طعنہ دیا اس نے
رزاق دو عالم کو
سبھی اس پر گلے کرتے ہیں، شکایات کرتے ہیں، اعتراضات کرتے ہیں۔ وہ سب کی سنتا ہے اور مسکراتا رہتا ہے۔ ہماری ناشکر گزاریوں پر اسے کبھی غصہ نہیں آتا۔ اس کا دل ہماری طرف سے کبھی میلا نہیں ہوا۔
ہماری گلی میں ایک فقیر آتا ہے۔ وہ صدا دیتا ہے۔ ہر چند منٹ کے بعد اس کی صدا ساری گلی میں گونجتی ہے:
مری بار کیوں دیر اتنی کری
اس کی صدا سن کر مجھے غصہ آیا ہے۔میرے اندر کی بھٹیارن چڑ چڑ دانے بھونتی ہے۔
ایک روز میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ میں نے دوڑ کر فقیر کو پکڑ لیا۔
“یہ تو کیا کر رہا ہے بابے؟” میں نے غصے سے پوچھا۔
“صدا دے رہا ہوں بابو جی!” وہ بولا۔
“کیا مطلب ہے تیرا اس صدا سے؟” میں نے اسے ڈانٹا۔
“میں منگتا ہوں، مانگ رہا ہوں۔” وہ بولا۔
“کیا ایسے مانگا کرتے ہیں۔ احمق! پہلے مانگنا سیکھ۔ جو مانگنا ہے منت کرکے مانگ۔ ترلے کر، سیس نوا، دینے والے کا ادب کر، احترام کر، تو تو اس کے خلاف شکایت کر رہا ہے۔اسے طعنے دے رہا ہے۔ “مری بار کیوں دیر اتنی کری۔” بے وقوف! دینے والے کی مرضی ہے، چاہے جلدی دے چاہے دیر سے دے، چاہے کم دے، چاہے زیادہ دے۔”
فقیر بولا: “جا بابو جا، اپنا کام کر۔ ہمارے معاملے میں دخل نہ دے۔مانگنے والا جانے اور دینے والا جانے، تو ماما لگتا ہے۔ میں نے ساری زندگی یہی صدا دی ہے۔ اس نے کبھی نہیں ٹوکا مجھے، کبھی غصہ نہیں کیا۔ الٹا وہ مجھے دیتا رہا ہے، دیتا رہا ہے۔”