لکھ یار

حیات از قلم عظمیٰ خرم

#پری_اپرووڈ 

#حیات_پارٹ_20

وجاہت کا ایک ایک لفظ بختاور کے دل پر اترا تھا ،سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا پھر بھی دنیا کیا کہے گی ؟یہ سوال اس کے دل کی ہر خواہش پر کالے ناگ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا تھا ۔

تبھی احد نے ماں کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھاما اور اسے حوصلہ دیا ،”دیکھ بےبے !میرے دل اور ضمیر پر ایک بوجھ ہے، کہ جب جب میری ماں کو میری اشد ضرورت تھی میں اس سے دور تھا اس کے حقوق پورے نہیں کر سکا۔پر اب میں اس قابل ہوں کہ تیرے لئے کھڑا ہو سکوں لوگوں کو منہ توڑ جواب دے سکوں چاہے اپنے ہوں یا پراے- میں تجھے کبھی مجبور نہ کرتا پر میں خود مجبور ہو گیا ہوں،میں تجھے بتانا نہیں چاہتا تھا پر بات یہ کہ یمنہ کو کینسر ہے اور لندن میں جہاں اس کا علاج چل رہا تھا وہاں اسے لیجانا از حد ضروری ہے…… جیسے تو میری ذمہ داری ہے ویسے ہی یمنہ بھی تو میری ذمہ داری ہے نا…… تو صرف میری خاطر اپنے احد سلطان کی خاطر یہ نکاح کر لے”۔

احد کی زبانی اصل بات سن کر بختاور کو پشیمانی نے گهیر لیا……. کیسی ماں تھی وہ…… بیٹے کی پریشانی نہ بوجھ سکی….. الٹا اسے لعنت ملامت کرتی رہی کہ وہ ماں کو بوجھ سمجھتا ہے….. مایں تو اولاد کی خاطر سولی پر بھی چڑھ جاتی ہیں…. یہ تو صرف ایک فیصلہ تھا جو اس کا بیٹا اسے زمانے کی گرم ہوا سے بچانے کی خاطر لینا چاہ رہا تھا……..لہٰذا اس نے چوہدری وجاہت کے حق میں اپنی رضامندی دے دی –

احد اپنی ماں کے دل میں دبے اندیشوں کے طوفان کو محسوس کر سکتا تھا اسی لئے اس نے فوری طور پر ایک فیصلہ کیا ۔

اس نے فوری طور پر بختاور اور وجاہت کے نکاح کا بندوبست کر دیا ۔شام کی چاے پر چوہدری وجاہت اس کی بہن اور چند قريبی گھر والوں کی موجودگی میں نہایت سادگی سے نکاح کی تقریب انجام بخیر ہوئی ۔

یمنہ کے تو مانو پاؤں ہی زمین پر نہ ٹک رہے تھے ۔بیماری کی نقاہت پر خوشی کا غلبہ اس قدر حاوی تھا کہ احد کے لاکھ منع کرنے کے باوجود اس نے میزبانی کے فرائض بھرپور طریقے سے ادا کئے ۔احد کی آنکھیں بار بار بھر آتی تھیں صد شکر کہ اس نے شازی آپا کو پہلے ہی بلا بھیجا تھا ۔دونوں بھائی بہن کے دل بھر بھر جاتے تھے ۔عجیب سی کیفیت تھی احد کو لگ رہا تھا جیسے اس کی بہن رخصت ہونے کو ہے ۔پر جیسے ہی ابجد ؤ قبول کی منزل طے ہوئی ان کے دل کو گویا قرار آ گیا جیسے ۔

 زاہد اور حامد کے ساتھ ان دونوں کی بیویاں بھی آیں تھیں ۔پر احد کی پریشانی کی اصل وجہ کچھ اور تھی وہ جانتا تھا کہ اس کے بھائی اور بھابیوں کے ظرف کا برتن اتنا وسیع نہیں کہ وہ بختاور اور وجاہت کا رشتہ کھلے دل سے قبول کر سکیں ۔

اسی لئے کسی بھی قسم کی بد مزگی سے بچنے کے لئے اس نے خاص احکامات جاری کئے – اس وجہ سے زاہد اور حامد کو پہنچتے ہی مہمان خانے میں ٹھہرا دیا گیا وہ بھی باوردی،اسلحے سے لیس گارڈز کے پہرے میں –

گیٹ سے مہمان خانے تک جاتے دونوں کو گھر میں کسی غیر معمولی ہل چل کا احساس ہو چکا تھا -پر ان پر گارڈز کا خوف اس قدر طاری تھا کہ وہ ان سے کچھ بھی پوچھنے کی جرات نہ کر سکے –

کھانا بھی انہیں مہمان خانے میں ہی بھجوا دیا گیا تھا –

بیحد مزیدار اور مرغن کھانا کھانے کے دوران ان کی زبانیں بھی چلتی رہیں –

“ہاں بھئی! بھائی تمہارا وڈا افسر لگ گیا ہے اور سنا ہے شہر کے اتنے بڑے جج کی بیٹی سے شادی کی ہے اس نے تو ٹور تو دکھاے گا نا ہمیں،مجھے تو لگتا ہے یہ سارا رعب دبدبہ ہمیں اس لئے دکھا رہا ہے تا کہ ہم حامد کے حصے کے پیسے نہ مانگ سکیں”-

آسیہ نے تیلی لگائی –

کھانا کھاتی نشو کے گلے میں لقمہ اٹک گیا، بمشکل پانی سے نوالہ نگلا اور بولی “سن حامد!کسی کے رعب میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،جو مرضی ہو جائے ہم اپنے حصے کے پیسے لے کر ہی جایں گے -“

حامد نے آسیہ کو آنکھیں نکال کر دیکھا،”گل سن بھابی!منہ چنگا نہ ہوے نا تو کم از کم بندا گل ہی چنگی کر لے،خود تو تم دونوں اپنے پیسے لے کے ڈکار بھی چکے ہو اور اب ہمیں پریشان کر رہے ہو “

زاہد کی بیوی نے غصے سے ہاتھ میں پکڑی روٹی اٹھا کے پلیٹ میں دے ماری،”اچھا جی!ہم پریشان کر رہے ہیں? خود تو تم دونوں میں ذرا دم خم نہیں،احد صرف گھوری ہی مار لے تو کیسے چوہے کی طرح دم دبا کے بھاگ لیتے ہو اور اب بھی بجاے شکر کرنے کے کہ ہم لوگ تمہاری مدد کرنے ساتھ آ گئے الٹا ہمیں ہی باتیں سنا رہے ہو -“

زاہد نے ماحول گرم ہوتا دیکھا تو حامد سے کہنے لگا “بس بس حامد! اپنی بیوی کو سمجھا،آسیہ بلکل صحیح کہہ رہی ہے،اور اب کوئی آپس میں نہیں لڑے گا بس کھانا کھاؤ پھر چلتے ہیں دو دو ہاتھ کرنے -“

کھانا کھانے کے بعد جیسے ہی انہوں نے مہمان خانے کا دروازہ کھولا تو فورا گارڈز نے ان کا راستہ روک لیا –

“بڑی معذرت صب! آپ میں سے کوئی بھی احد صاحب کی مرضی کے بغیر گھر کے اندر نہیں جا سکتے،آپ کو انتظار کرنا ہو گا -“

زاہد اور حامد کو یہ سب سن کے شدید جھٹکا لگا….. “کیا?کیا کہا? تم ہوتے کون ہو ہمیں روکنے والے اور بھاڑ میں جائے تمہارا صاحب بہادر،ہم یہاں اپنی ماں سے ملنے آے ہیں اور ہمیں کوئی نہیں روک سکتا “- زاہد نے گارڈ کو دھکا مارتے ہوے کہا -پر اس سے پہلے کہ وہ مزید پیش قدمی کرتے گارڈ کے اگلے الفاظ نے ان کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی –

“ٹھیک ہے پھر جیسے آپ کی مرضی،احد صب کا حکم ہے کہ اگر آپ لوگ کہنا نا مانیں تو آپ سب کو مہمان خانے سے سیدھا،”حوالات کے ڈرائنگ روم “پہنچا دیا جائے،تاکہ وہاں آپ صب سے باضابطہ ملاقات کر سکیں “-

یہ سنتے ہی ان سب کی مارے حیرت اور خوف کے آنکھیں پھیل گیں،آسیہ نے حسب معمول اندر کی طرف زاہد کا بازو کھینچنا شروع کر دیا جبکہ نشو اور حامد بھی بھاگ کے اندر جا گھسے اور مہمان خانے کی چٹخنی بھی چڑھا لی،مبادا کہیں گارڈز انہیں لینے اندر ہی نہ آ جایں –

“دیکھا!دیکھا!میں نہ کہتی تھی دال میں ضرور کچھ کالا ہے،لو بھیا! تم تو تیاری پکڑ لو اب نا دیے احد نے پیسے -” آسیہ بولی –

نشو اور حامد نے بھابی کی ساری بات سنی اور پھر ایک دوسرے کو دیکھا گویا ان کا دل آسیہ کی “کالی زبان “پر ایمان لے آیا تھا –

بختاور نے ساری رات بے آواز سسکتے…….. حشمت کو یاد کرتے اس سے معافی مانگتے گزاری- صبح نماز فجر کے بعد وہ باہر لان میں چلی آئی….. سر درد سے پھٹا جا رہا تھا –

تبھی اسے محسوس ہوا کہ وہ اکیلی نہیں ہے کوئی اور بھی ہے جو ایک فاصلہ بناے اس کا سایہ بنا ہوا ہے…….”بس کر دے کملی!اور کتنا روے گی? اب آگے کا سوچ، بچوں کی خیر مانگ, میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں تجھے کبھی مایوس نہیں کروں گا -” چوہدری وجاہت نے اس کے سامنے آ کر کہا –

بختاور خفگی سے بنا کچھ کہے اندر جانے کو اٹھ کھڑی ہوئی،اسی جلدبازی میں اس کے قدم ڈگمگا گئے پر اس سے پہلے کہ وہ گر جاتی وجاہت نے اسے تھام لیا پر بختاور کو یہ سہارا پسند نہ آیا اسے رہ رہ کر اپنی بےبسی کا احساس کوڑے مارنے لگا،”کیوں کی تو نے مجھ سے شادی،ذرا شرم نہ آئی تجھے،باجی بختو کہتا تھا تو مجھے……. پھر کیوں….? میں تو مجبور تھی بیٹے کے ہاتھوں پر تجھے کیا مجبوری تھی? ” بختاور بلک رہی تھی….. سسک رہی تھی…..

پر اس سے پہلے کہ چوہدری وجاہت کوئی جواب دیتا…… کسی نے غصے میں اسے جھپٹ کے زور دار دھکا دیا جس کے نتیجے میں چوہدری وجاہت دور جا گرا اور بختاور جس کا سارا وزن چوہدری وجاہت کے بازو پر تھا وہ بھی زمین پر اوندھے منہ گر پڑی – 

“بختو!بختو!” اگلے ہی لمحے چوہدری وجاہت نے اٹھ کر بختاور کو اٹھانا چاہا پر سامنے کھڑے زاہد اور حامد نے اس کی یہ کوشش ناکام بنا دی –

بختاور کے رونے کی آواز سن کر آسیہ جاگ اٹھی تھی اور اس نے زاہد اور حامد کو بھی بھڑکا کر نیند سے اٹھایا کہ دیکھو باہر تمہاری ماں غیر مرد کے ساتھ کیا رنگ رلیاں منا رہی ہے –

زاہد اور حامد نے شدید غصے میں وجاہت کو دھکا دے کر ماں کو پرے گرایا اور اب بجاے ماں کو اٹھانے کے زاہد اور حامد وجاہت کے ساتھ دست و گریبان تھے،گالیوں اور مغلظات کا ایک طوفان تھا جو ان کے منہ سے بہے چلا جا رہا تھا –

شور کی آواز سن کر احد اور یمنہ بھی باہر کی جانب بھاگے….. پر باہر کا منظر ان کو چکرا دینے کے لئے کافی تھا –

احد نے بھاگ کر ماں کو اٹھانے کی کوشش کی جس کے ناک سے خون بہہ رہا تھا -اور پاس کھڑے گارڈ کی گن لے کر ہوائی فائر کیا –

زاہد کو لگا گولی اس کے کان کو چھو کر گزر گئی ہے،اس نے فورا وجاہت کو چھوڑ کر اپنے کان کو ٹٹولا جو شایں شایں کر رہا تھا -جہاں کچھ دیر پہلے کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی وہاں اب موت کا سناٹا تھا،ہر کوئی حواس باختہ ایک دوسرے کو دیکھ رہا تھا –

ایسے میں غصے اور ضبط سے لال ہوتے احد نے ماں کو گود میں اٹھایا،گارڈز کو اشارہ کیا اور تیز قدموں سے اندر چلا گیا، چوہدری وجاہت اور یمنہ نے فکر مندی سے اس کی تقلید کی –

اشارہ پاتے ہی گارڈز نے زاہد اور حامد کو احد کے پیچھے جانے سے روک دیا اور ان سب کو ہانک کر مہمان خانے میں بند کر کے باہر سے تالا لگا دیا –

نیم بیہوش بختاور نے عالم مدہوشی میں حشمت کو اپنے قریب محسوس کیا،”میرا تجھ سے وعدہ ہے،یہ زخم آخری ثابت ہوں گے تیرے،بسسسس……… اب اور کوئی تکلیف نہیں “- نیند کی دوا کے زیر اثر بختاور اب غنودگی میں تھی –

وجاہت کی زبانی ساری بات سننے اور اپنی ماں کا یہ حال دیکھنے کے بعد اس کا خون کھول رہا تھا -وہ تو تربیت آڑے نہ آتی تو آج بھائی بھائی کا خون کر دیتا –

خود کو قابو میں کرتے ہوے……… رات کو اس نے مہمان خانے کا تالا کھلوا کے ان سب کو بلا بھیجا –

 

ان کے آتے ہی رسمی ملنے ملانے کے بعد احد نے حامد کے حصے کے پیسے بنا تقاضے کے ان کے حوالے کر دیے ۔بختاور جو اصل بات سے لاعلم تھی،ہمیشہ کی طرح زاہد اور حامد کا لمس پا کر تڑپ اٹھی ۔بار بار بیٹوں کے ہاتھ چومتی اپنے ہاتھوں سے ان کے چہرے کے خدوخال ٹٹولتی, جو کہ پہلے سے زیادہ کرخت ہو چکے تھے -پھر اس سے پہلے کہ زاہد یا حامد کوئی سوال کرتے ،

احد نے انہیں اصل بات بتانے کے لئے تمہید باندھی جسے زاہد اور حامد نے بے دھیانی میں سنا پر اگلا جملہ ان کی سماعاتوں پر بمب کی مانند لگا ،”اور اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ بےبے اور وجاہت چاچا کا نکاح کر دیا جائے “،”کیا !؟؟کیا کر دیا جائے !!؟زاہد اور حامد اپنی اپنی کرسی چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوے ،پر احد کا اطمینان دید کے قابل تھا اس نے ان کے تنے ہوے کرخت تاثرات کی رتی برابر پرواہ نہ کی –

جاری ہے……….

از قلم “عظمیٰ خرم “

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button