کتاب : تلاش
باب 8 : جہاں گُڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے
ٹرانسکرپشن : احتشام الحق
میں مجرم ہوں
پھر اسے وہ تاریخی قصہ سناؤ جسے سن کر مسلمانوں کی عظمت کا احساس دلوں کو دہلا دیتا ہے۔
مسلمان سپاہ نے افریقہ کے ایک شہر کا محاصرہ کر لیا۔ شہر کے مقتدر لوگوں نے دیکھا کہ اتنی بڑی سپاہ کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ لہٰذا ہار مان لی اور صلح کی درخواست کر دی۔ مسلمان کماندار نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ شہر میں داخل ہو جائیں۔ شر کے کسی فرد پر زیادتی نہ کی جائے۔ املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ کماندار نے کہا، سپاہیو ! اب تم شہر کے فاتح ہو اور فاتح کا کام لوٹ مار کرنا نہیں بلکہ مفتوح کی حفاظت کرنا ہے۔
اگلے روز شہر کے مقتدر لوگ کماندار کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کہنے لگے، آپ نے ہماری حفاظت کا ذمہ لیا تھا لیکن حفاظت کے بدلے ہماری تذلیل کی گئی ہے۔ شہر کے بڑے چوک میں ہمارے ایک محبوب لیڈر کا مجسمہ نصب ہے، رات کے اندھیرے میں کسی تخریب کار نے مجسمے کی ناک کاٹ دی ہے۔ یہ کام کوئی شہری تو نہیں کر سکتا۔ لہٰذا آپ کے کسی سپاہی نے کیا ہے۔ مجرم کو کڑی سزا دی جائے۔
مسلم کماندار نے اپنے سپاہ کو حکم دیا کہ شہر کے بڑے چوک میں جمع ہو جائیں۔
کماندار نے ایک تقریر کی۔ کہنے لگا، ہم نے شہر کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا۔ اہالیان شہر ہم سے عدل و انصاف مانگ رہے ہیں۔ اسلام کی عزت کا سوال ہے۔ لہٰذا میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جس نے بھی یہ کام کیا ہے، وہ اٹھ کر کھڑا ہو جائے اور اقبال جرم کر لے۔
کماندار نے تین بار اس اعلان کو دہرایا لیکن کسی سپاہی نے اٹھ کر اقبال جرم نہ کیا۔
اس پر کماندار نے معززین شہر سے کہا کہ ان کے حالات میں ہم سے ہرجانہ وصول کر لیں۔ جو مطالبہ آپ کریں گے، ہم اسے پورا کریں گے۔ لیکن شہر کے بڑے اس بات پر مصر تھے کہ سر کے بدلے سر، آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک۔
کماندار نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانے۔
بالآخر کماندار نے کہا، چونکہ آپ کی حفاظت کی ذمّہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے، لہذا میں اپنی ناک پیش کرتا ہوں۔
کماندار کا فیصلہ سن کر مسلمان سپاہیوں میں احتجاجی شور مچ گیا۔ پھر ایک سپاہی اٹھ کھڑا ہوا۔ بولا، عالی جاہ ! مجھے پہلے ہی اقبال جرم کر لینا چاہیے تھا لیکن ڈر کے مارے چپ رہا۔ اب میں اقبال جرم کرتا ہوں۔ لہٰذا میری ناک کاٹ لی جائے۔
ابھی وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ دوسرا سپاہی اٹھ کھڑا ہوا۔ بولا، جناب ! یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ دراصل مجرم میں ہوں۔ میں نے مجسمے کی ناک توڑی ہے۔ تیسرا سپاہی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا، عالی جاہ ! یہ دونوں جھوٹ بول رہے ہیں۔ اہالیان شہر نے مسلمان سپاہیوں کا جذبہ، ایثار دیکھا تو وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے مطالبہ چھوڑ دیا۔
یہ تھی عظمت ہمارے اسلاف کی۔ صرف امن میں ہی نہیں، جنگ میں بھی غیر مسلموں کے لیے ان میں اتنی رواداری تھی۔ یہ تھی ایثار، رواداری اور انصاف کی تلوار جس کے زور پر اسلام پھیلا!