کتاب : تلاش
باب 3 : نئی نسل
ٹرانسکرپشن : فرحین فرحان
بلقیس کا طوطا
اسلام آباد میں ایک بہت بڑی شاعرہ رہتی ہے بلقیس محمود۔ نظم کی شاعرہ ہے۔ میں بلقیس کا مداح ہوں، وہ ہمیشہ منفرد مضوعات پر لکھتی ہے۔ اس کی زیادہ تر نظمیں بارھویں کھلاڑی پر ہیں۔ اسکا بیٹا تاشی امریکہ چلا گیا تو بلقیس نے ایک نظم ان دنوں سے متعلق لکھی جب اسکا بیٹا تاشی اسلام آباد میں اپنے امی ابا کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ ایک طویل نظم ہے، اسکے اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ صاحبو! یہ بھی جان لو بلقیس کا گھر احترام اور رسم بھرا ((Traditional گھر نہیں ہے۔گھرکی فضا آزاد ہے، پیار بھری ہے، اس کے باوجود وہ اپنے بیٹے تاشی کے جذبات یوں رقم کرتی ہے:
—-مجھے لگتا ہے امی
میں
بڑھاپے سے بھری بستی میں آکر
پھنس گیا ہوں
یہاں ہرشخص بوڑھا ہے
یہ چودہ سال کی بہنا
یہ سولہ سال کا بھائی
یہ دونوں آپ۔۔۔۔
یہ گہرے سلیٹی رنگ کی
بے رنگ سی دنیا
خدایا میں کہاں پر آ گیا ہوں
یہاں ہنسنا ہنسانا جرم لگتا ہے
یہاں پر زندگی کے گیت گانا
Banہے شاید
مرا کیا جرم ہے امی
مجھے لگتا ہے امی! آپ سب صیاد ہیں میرے
مرے پرکاٹ کر
پنجرے میں رکھ لینے کی اک خواہش
بس اک خوش رنگ سا طوطا
میاں مٹھو
کہ جب چاہا
میاں مٹھو میاں مٹھو کہا
بہلایا
خوش کرلیا
اپنے بڑھاپے کو
تعجب ہے مجھے امی
کہ اپنے دوستوں میں آپ ہنستی ہیں
مجھے سچ سچ بتائیں آپ کو ہنسنا بھی آتا ہے؟؟
کوئی sense of Humor
آپ میں بھی ہے؟
مجھے تو آٌپ سارے
دکھ کے مارے
بوڑھے بوڑھے لوگ لگتے ہیں
کہ جن کی ساری کوشش ہے
مجھے بھی توڑ کررکھ دیں
دکھی سنجیدہ گہرے رنگ میرے بھی منہ پر مل دیں
میری امی میرے ابو
مجھے انگریزی گانوں اور کارٹونوں سے تو نا روکیں مجھے وہ ” ویلری بابا
وہ چھوٹی چھوٹی زندہ دل لڑکیاں
”می شیل” ——–وہ ”ڈی جے”
مکمل زندگی والا وہ” فل ہاؤس”
یہ سب تو دیکھ لینے دیں
وہ سارے خواب
ساری خواہشیں
جو میرے اندر ہیں
انہیں باہر تو آنے دیں