کتاب : تلاش
باب 3 : نئی نسل
ٹرانسکرپشن : فرمان اللّٰہ
کہانیاں
میری کہانی بے اثر رہی۔ میں ایک خام لکھنے والا ہوں۔ پھر یہ بھی ہے کہ آج کی دنیا میں کہانیوں کی کیا حیثیت ہے۔لوگ کہانیاں تفریح کے لیے پڑھتے ہیں۔ ان سےاثر پذیر نہیں ہوتے۔
بڑے کہانی نگاروں نے کہانیوں کے پردے میں بڑی بڑی حقیقتیں پیش کی ہیں۔
ایک بہت بڑا کہانی کار(AESOP)تھا۔
ایسکوپ نے کہانی اس دور کی لکھی ہے جسے ”شولری“یا شجاعت کا دور کہتے ہیں۔ دو سورماٶں کا دور تھا۔ شوکت نفس کا دور تھا۔ چھوٹی سی بات پر عزت نفس مجروح ہوجاتی تھی ۔تلواریں نیام سے نکل آتیں اور تیغ زنی یعنی”ڈوول(Duel)“شروع ہوجاتی۔ تلواریں چلتی رہتیں جب تک ایک گھاٸل نہ ہو جاتا۔ ڈوول میں داخلہ قانونی طور پر داخلہ ممنوع نہ تھا۔
ایسکوپ لکھتا ہے کہ سڑک چل رہی تھی۔ اسلحہ سے لیس گھڑسوار سورما آجا رہے تھے۔سڑک پر ایک دو طرفہ بورڈ آویزاں تھا۔ دفعتاً ایک سورما بورڈ کو دیکھ کر رک گیا بولا ”واہ کیسا خوبصورت نیلے رنگ کا بورڈ لگا ہوا ہے۔”سڑک کے دوسری جانب سے ایک اور سورما آگیا۔ بولاب”واقعی! بہت خوبصورت ہے۔ مگر اس کا رنگ سرخ ہے۔“
پہلا سورمابولا”ہم کہتے ہیں کہ اس کا رنگ نیلا ہے۔“
دوسرے نے کہا ”ہم کہتے ہیں اس کا رنگ سرخ ہے۔
پہلے نے کہا ”تم ہماری توہین کر رہے ہو۔ نکالو تلوار۔“
دونوں سورماٶں نے تلواریں نکالی اور ڈوول کے لیے تیار ہوگۓ اتنے میں ایک سیانا بوڑھا موقع پر آپہنچا۔ بولا! ”بھاٸیو کس بات پر ڈوول لڑنے لگے ہو؟“
پہلے سورما نے کہا کہ اس نے ہماری توہین کی ہے۔
”کیسے ؟“ بوڑھے نے پوچھا۔
”ہم کہتے ہیں جو بورڈ سڑک پر آویزاں ہے، نیلے رنگ کا ہے“
دوسرا بولا ہم کہتے ہیں ”کہ بورڈ سرخ رنگ کا ہے۔“
بوڑھا بولا۔ آٶ دیکھیں بورڈ کا رنگ کیا ہے ؟
انھوں نے دیکھا کہ بورڈ پر ایک جانب نیلا رنگ کیا ہوا تھا دوسری جانب سرخ۔
آج بھی بیشتر جھگڑے اس بات پر ہوتے ہیں۔
ایک کہتا ہے ”بورڈ نیلا ہے“
دوسرا کہتا ہے ”نہیں سرخ ہے“
کبھی کسی نے بورڈ کی دوسری جانب دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ کہتے ہیں اسلام میں 72 فرقے ہیں۔اس بورڈ پر 72رنگ ہیں۔ کبھی کسی راہبر نے بورڈ کی دوسری جانب نہیں دیکھا ۔ کسی راہبر نے یہ نہیں کہا کہ یہ اختلافات فروعات پر مبنی ہیں ۔ روح ایک ہے، منزل ایک ہے۔