Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 4 : بڑی سرکار

ٹرانسکرپشن : سمرن چٹھہ

ذاتی معاملہ


آج کل اخباروں میں مدیر کے نام خطوط کے کالم میں ایسے خطوط شائع ہو رہے ہیں جن کا عنوان کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ “میں نے اسلامی پارٹیوں کو ووٹ کیوں نہ دیا کیوں نہ دوں گا؟”
مثال کے طور پر ایک انگریزی روزنامے میں ایسی ہی نوعیت کا خط یکم دسمبر کو شائع ہوا تھا جسکا لب لباب میں اپنے لفظوں میں شائع کرتا ہوں.
ازارہ کرم اپنے اخبار میں اشاعت کرکے قارئین کو بتادیجیے کہ میں نے مذھبی پارٹیوں کو ووٹ دینے سے انکار کیوں کیا. انکار اس لیے کہ انہوں نے اسلام کو الیکشن “ایشو” بنا رکھا ہے. اس طرح انہوں نے اسلام کو ایک بحث طلب مسئلہ بنا دیا ہے.
میں اسے تسلیم نہیں کرتا. اسلام نا تو “ایشو” ہے اور نا ہی بحث طلب مسئلہ. میرے نزدیک اسلام ایک ضابطہ حیات ہے.
ہمارے ہاں بہت سے مذھبی فرقے ہیں سنی،شیعہ،بریلوی، ہر پارٹی کا اسلام کے متعلق مختلف نظریہ ہے. میرے نزدیک اسلام اختلاف نہیں. اسلام ایک ہے فرد اور اللہ کے درمیان تعلق.
ہر مسلمان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نظریے کے مطابق اسلام جیے بشرطیکہ وہ اپنا نظریہ دوسروں پر نا ٹھونسے. اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات کے مطابق فرائض ادا کرے اور اپنی مرضی کے مطابق کوئی سا فقہ مان لے.
کسی مولوی یا دینی عالم کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس میں دخل دے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اگر کوئی مسلمان ہاتھ یا پاؤں کو کاٹنے یا سنگسار کرنے کے اصول کو مان لے تو وہ بہتر مسلمان بن جاتا ہے. میں ان سے کہتا ہوں کہ میں اس لیے مسلمان ہوں کہ میرے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ کی محبت گامزن ہے. اس لیے نہیں کہ میں دوزخ کے عذاب سے خوفزدہ ہوں۔ میرے اسلام کی بنیاد محبت ہے خوف نہیں۔ اگر مولوی لوگ اپنے اسلام کی بنیاد خوف رکھنا چاہتے ہیں تو بیشک رکھیں “(غلام اکبریا۔کراچی)
یہ خوش فہمی کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے مذہب سے فرار کے لیے پیدا کی گئ ہے۔ میں بھی ایک زمانے میں یہ سمجھا کرتا تھا کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ مجھے یہ خیال کبھی نہیں آیا تھا کہ اسلام اگر ذاتی معاملہ ہے تو پھر اسلام ایک کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر تو ہر فرد کا اپنا اسلام ہوا.
دراصل ایسے چمکیلے خیالات مغرب سے آتے ہیں اور ہمارے نوجوانوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں.

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button