کچھ اور نہیں ، بانو قدسیہ ۔ تبصرہ رفعت شیخ
کچھ اور نہیں ” بانو قدسیہ کے ان شاہکار افسانو ں کا مجموعہ ہے جس میں
انھوں نے آ دم و حوا کے الوہی اور بنیادی تعلق کی نفسیات کو بہت خوبصورتی
سے محسوس کرایا ہے اور اس کی پیچیدگی کو سمجھانے کی کوشش کی ہے.
انتساب ممتاز مفتی صاحب کے نام ہے.
“شرار شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں “
پہلے افسانے ‘توجہ کی طالب ‘میں توجہ کی نظر کا جادو مزکور ہے کہ نگاہو ں
کا مرکز بننے پربدصورت عورت کی بدصورتی بھی یوکلپٹس کی چھال کی طرح جھڑ
جاتی ہے.
عورت کا حسن دراصل ان توصیفی نگاہوں سے ہی بنتا ہے.
بانو سمجھتی ہیں کہ مرد کو عورت محبوبہ کے روپ میں سہاتی ہے, عاشق بننے پر
وہ کشش کھو دیتی ہے. وہ عاشق ہونے کی متحمل نہیں ہو سکتی ,سلگنا مقدر ہے
,مگر بھڑکے گی تو راکھ ہو جائے گی.
دوسرا افسانہ “کلو ” دھیمی آ نچ
اور بھڑکتے شعلوں کا تقابل ہے, روپ نامی خصوصیت کا خوبصورتی سے واسطہ
نہیں, ” بد صورت عورت میں بھی روپ ہوتا ہے لیکن سلگتی چھپی چنگاری جیسا,
جو ایکدم جلاتا نہیں لیکن خاموشی سے سرائیت کر جاتا ہے. بانو لکھتی ہیں
“بدصورت عورت کا روپ ڈس لے تو بندہ جنم جنم کا روگی ہو جاتا ہے ” مصنفہ
نے التفات اور خدمت کو وہ سیڑھی قرار دیا ہے جس پر چڑھنے والا, چڑھانے
والے کا محتاج ہو جاتا ہے,
تعریف اور تواضع وہ نشہ ہے جو پلانے والے
کو محبوبیت کا تخت دلوا دیتا ہے, توجہ دینے والا جب سبو اٹھا لے تو
پینے والے بھکاری ہو جاتے ہیں.
تیسرے افسانے “کال کلیچی ” میں ایک بار
پھر کم صورتی کی کشش, گورے پن سے وابستہ غلامانہ زہنیت موضوع ہے . چار
دیواری میں مرد کی توجہ کی متلاشی عورتو ں کی باہمی چپقلش اور گھریلو سیاست
کا دلچسپ نقشہ یوں کھینچا گیا ہے کہ قاری خود کو ان کردارو ں کے درمیان
محسوس کرتا ہے.
افسانہ “رشتہ و پیوند ” اپنے جزبات کو اصل رنگ
میں قبول نہ کر سکنے کی ازیت کا بیان ہے. قرب کی خواہش محرم رشتے کا
مصنوعی نام اور نقاب اوڑھا کے قابل قبول بنانے کی کوشش کا زکر ہے. بانو
لکھتی ہیں
“دل بے قابو کو سمجھا لیں لیکن یہ دڑنگے مارنے سے باز نہیں آ تا ” کسی کو بہن کہنا آ سان ہے اسے نبھانا مشکل ہے
مصنفہ کے الفاظ میں ” تمنا سے چقماق کی سی چنگاریاں اٹھتی رہتی ہیں. “
“بکری اور چرواہا ” سے معنون افسانے میں بانو بتاتی ہیں کہ مرد کے دل پر
اس کی بھوک کا قفل لگا ہوتا ہے, بھوک کی کوئ بھی قسم ہو, جو بھی اسے
مٹایے وہی من مندر میں بسیرا کرتا ہے.
بانو نفس کو بکری اور خواہش
کو سبزے کی مہک سے تشبیہ دیتی ہیں, انا ego کا چرواہا ہٹ ہٹ چلاتا
رہتا ہے لیکن منہ زور بکری گھاس کی آ غوش میں گھس جاتی ہے. اور اس
کے جواز تلاش کرنے میں نفس کو مات نہیں ہوتی ,جواز مل ہی جاتے ہیں.
“کرکل “نامی افسانے میں بانو جبلت کی مکاریاں دکھاتی ہیں کہ یہ اپنی
تسکین کے لئے کیسے کیسے بھیس بدلتی ہے, کبھی ہمدردی , کبھی عقیدت, کبھی
کلچراور کبھی تمدن کی آڑ میں نفسانی خواہش کا بھیڑیا کام دکھا جاتا
ہے اور آ دم زاد ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں.
“کچھ اور نہیں ”
میں بانو قدسیہ ,نفس, خواہش, کشش اور مجبوری کی قلعی کھولنے کے بعد
“مراجعت ” دکھاتی ہیں .مراجعت نام کے افسانے میں وہ لکھتی ہیں کہ دنیا
کے دکھ ان لوگوں نے پیدا کیۓ جو لینے کے حریص ہیں اور دینے میں کنجوس,
دولت ,نعمت, محبت اور سکون لینے کے لئے ہم ہاتھ پھیلا نا جانتے ہیں
,واپس کرنا نہیں ,ہم ماں باپ سے ملی محبت بھی آ گے بانٹنا شروع کر دیں
تو دکھ کم ہو سکتے ہیں. سو دنیا کے دکھ میں اضافہ کرنے والوں کی فہرست لمبی
ہے اس میں خوشی کا قطرہ ڈ النے والوں کے نام بہت کم!!!
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں