کتابوں پر تبصرے

سفر العشق! سیف الملوک و بدیع الجمال تبصرہ:طارق نیازی

سفر العشق !! سیف الملوک و بدیع الجمال __ !!

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته __ !!

سب سے پہلی بات کسی بھی ادیب ، افسانہ نگار کی کتاب ، افسانہ
یا فلسفے پر تبصرہ کرنے کی نہ تو میری اوقات نہ میرے بس میں ، کیونکہ میں الفاظ کی ضعیفی ، وسعت قلب کی کمی اور فہم و فراست سے محروم خالی دماغ شخص ہوں تہی داماں شخص بھلا کسی کو کیا دے سکتا ہے لہذا کسی افسانے و فلسفے کو سمجھنے کیلئے اس ادیب کے افکار و نظریات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے جس کی مجھے کوئی شد بد نہیں کیونکہ میری عقل سیلم کو کج روی کے تمام عارضے لاحق ہیں یہی وجہ ہے کہ میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں یوں تو بہت سے ادیبوں کو پڑھا مگر جس ہستی کی کتاب نے فقیر کے اندر اٹھتے سوالات کو نہ صرف جزاء بخشی بلکہ ایک ایسے جہان سے روشناس کرایا جس پر جتنا بھی قلم کا گھوڑا دوڑاؤں کم ہے وہ ایک عارف کامل میرے روحانی پیشوا حضرت میاں محمد بخش رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب سفر العشق ہے جو ایک شہزادے و پری زاد کے عشق پر پنچابی شاعری کی صورت میں لکھی گئی آج جو پسندیدہ کتاب کا ذکر آیا تو میرے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو گئی مانا کہ اس میں بات مجازی ہے جس کی بابت آپ کا ایک شعر بھی کہ __ !!

بات مجازی رمز حقانی ون وناں دی کاٹھی
سفر العشق کتاب بنائی سیف چھپی وچ لاٹھی

روم کشمیر نے اس کتاب میں جیسے کائنات کو سمو نہیں پرو دیا ہو حیرت کی وادیاں ہوں ، کائنات میں اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کے چھپے بھید ہوں ، حسن کے جلووں کا ذکر ہو ، ندی نالے ، کہسار ، پہاڑی جھرنے ہوں ، خوبصورت بیل بوٹے ہوں ، انسانیت کا درس ہو نفس کے بہکاوے ہوں کرداروں کے حوالے سے ، مذہب و مذہبی معاملات ہوں واللہ ایک ایک شعر میں دریا نہیں جیسے سمندر کو کوزے میں بند کیا گیا ہو بھلے ہی آج کسی کو ان کے اشعار کا مطلب سمجھ نا آئے مگر ان کا اثر ، لے ترنم و سر لہجہ سامے کو اپنے سحر میں ایسے جکڑ لیتا ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتا _ !!

بہرحال __ !!

دور حاضر میں جہاں اردو ادب کو قال کا آسیب نگلنے کو ہے وہاں پنجابی ادب تو جیسے غلام گردشوں کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو سا گیا حالانکہ بڑے نامور شاعر حضرات نے پنجاب کی دھرتی میں رائج اپنی ماں بولی کو اپنے وقت ناصرف ایک لازوال عروج بخشا بلکہ پنجابی ادب میں شاعری کے ذریعے ایک مثبت پیغام بھی عوام الناس تک پہنچایا ان میں روم کشمیر کا نام بھی میں سمجھتا ہوں سرفہرست ہی نہیں منفرد بھی ہے _ !!

مجھے یہ کہنے اور تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ سیف الملوک ایک فرضی و تخیلاتی داستان ہے مگر آپ اس میں کی گئی لازوال شاعری کو پڑھیں جس میں مرد و زن کی نفسیات ، عشق کے قرینے اور ہجر و وصال کے سوز و گداز پن اور خیر و شر کے مابین لڑائیاں جس کے بعد خیر کو نصیب ازلی فتح اور انسانی زندگی سے وابستہ تمام پہلوؤں کو خوش اسلوبی سے اس دور میں پرویا گیا جس وقت برصغیر میں انگریز پوری طرح قابض ہو چکے تھے اس دور میں فرضی و تخلیقی کردار کے پردے میں انسانیت کا درس ، دانائی و اچھائی اور وجدان و فیض کی ظاہری و باطنی تمام صفات کو تسبی میں دانوں کی طرح پرویا گیا جب میں نے اس کتاب کو پڑھ تو اب کیا بتاؤں _ !! کہاں سے حکم ملا ۔۔۔۔ ؟؟ کیوں ملا ۔۔۔۔ ؟؟ ایک تشنگی تھی جو سیراب ہوئی اور ایک بڑھ گئی پھر اسے اردو میں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ڈی کوڈ کرنے کا حکم دیا گیا فقیر کی بساط سے بڑھ کر کام دیا گیا اور جہاں مشکل آڑھے آئی وہیں رہنمائی بھی کی گئی اور پچاس اقساط میں ایک حصے کی اردو ترجمہ کر کے ممتاز مفتی گروپ کی وال پر پوسٹ کی اب الحمدللہ دوسرے حصے پر کام کر رہا ہوں ، ان شاءاللہ عزوجل عنقریب کتابی شکل میں لے آؤں گا اگر ان کا کرم و فیض شامل حال رہا تو __ !!

رحمت دا مینہ پا خدایا باغ سُکا کر ہریا
بوٹا آس امید میری دا کر دے میوے بھریا

مٹھا میوہ بخش اجیہا قدرت دی گھت شیری
جو کھاوے روگ اس دا جاوے دور ہووے دلگیری

جو آگ سائیں نے لگائی دعا ہے رب العالمین سے کہ اب وہ اس کے بھڑکنے کا ساماں بھی میسر کریں میرا یہ تبصرہ مقابلے سے بری الزمہ ہے !!طارقنیازی __ !!

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button