حیات از قلم “عظمیٰ خرم “
#پری_اپرووڈ
#حیات_پارٹ_9
# حیات
پارٹ 9
سخت گرمی کے دنوں کی ایسی ہی ایک تپتی دوپہر بختاور اپنی ڈیوٹی پوری کر کے گھر کی جانب آ رہی تھی دور دور تک کوئی بدلی نہ تھی کہ جس کا سایہ نصیب ہوتا ۔کواٹر کا تالا کھول کے اندر آتے ہی اس نے چادر اتار کے رکھی اور گھڑے میں سے پانی بھرنے لگی ۔آنکھوں میں آنسو چڑھے ہوے سانس کے ساتھ وہ کانپتے ہاتھ سے گھونٹ گھونٹ ٹھنڈا پانی اپنے اندر اتارنے لگی ۔جیسے جلتے کلیجے پر پانی ڈال رہی ہو ۔یہ اس کا روز کا معمول تھا گھر کے دروازے کو ہاتھ لگاتے ہی اسے شازی کی یاد آتی ،آج بھی اس نے دل سے اپنی بیٹی کی زندگی اور خوشی کے لئے دعا مانگی ۔
تبھی کواٹر کی سیڑھیوں پر جانی پہچانی قدموں کی آواز سنائی دی کوئی بڑی بیتابی سے اوپر آ رہا تھا ۔بختاور اسی بیتابی سے باہر کی جانب دوڑی تو یہ دیکھ کر جهينپ گئی کہ ایک پٹھان مرد جس کے سر پر بڑی سی روایتی دستار تھی اور اس کے ساتھ ایک عورت جو سر تا پير ٹوپی والے برقع میں ملبوس تھی اور اپنا سانس درست کر رہی تھی ۔غالباً کسی کے مہمان تھے وہ ,بختاور نے اگلے ہی لمحے ان کا راستہ چھوڑا پر اس سے پہلے کہ وہ اپنے کمرے میں جانے کے لئے پلٹتی وہ ،”ٹوپی والا برقع” پورا کا پورا اس پر آن گرا اور اس سے لپٹ گیا ۔بختاور اس اچانک افتاد کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھی ۔”بےبے ! بےبے !”،تبھی اس نے روتے ہوے شازی کی آواز سنی ۔وہ اس کی شازی کی تھی ۔دونوں ماں بیٹیاں دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔جذبات کا دھارا سب بہاے لے جا رہا تھا ۔
بختاور سميت پورا محلہ یہی جاننے کو بیتاب تھا کہ اس ایک سال چار ماہ میں شازی پر کیا کیا بیتا ۔
شادی کے تقریبا ایک مہینے بعد شازی نے بہروز سے گھر جانے کی اجازت مانگی پر بہروز نے اسے بتایا کہ انہیں جلدی گاؤں پہنچنا ہے کیوں کہ اس کی نانی ماں حالت مرگ میں ہے ۔لہٰذا ایک رات وہ لوگ ريل گاڑی میں سوار ہوے اور بجاے کسی گاؤں جانے کے کراچی جیسے بڑے شہر میں جا پہنچے ۔وہی ان کی منزل تھا ۔یہاں شازی کو ان کے بہروپ کا علم ہوا کہ کس طرح یہ ماں بیٹا کسی غریب ،مجبور خاندان کو پھانستے اور پھر ان کی بیٹی سے جھوٹی شادی کر کے اسے لے کے نو دو گیارہ ہو جاتے اور کسی دوسرے شہر میں جا کر چند ہزار روپے کے لئے اسے بیچ دیتے اور جب تک وہ پیسے رہتے عیش کرتے اور پیسے ختم ہوتے ہی نیا شہر ،نیا مکان نئی شادی۔شازی ان ماں بیٹے کا چھٹا شکار تھی اسے بھی بہروز نے طلاق دے کر ایک پٹھان کے ہاتھ بیچ دیا ۔
شازی کی قسمت اچھی تھی کہ وہ شریف آدمی تھا اور پہلے سے شادی شدہ تھا فیروز خان کے دو بیٹے تھے ایک تین سال اور ایک سات سال کا ۔فیروز خان اپنی بیوی سے بہت محبّت کرتا تھا ،قسمت کی ستم ظریفی کہ اس کی بیوی پچھلے دو سال سے فالج زدہ تھی اور گھر بار کی دیکھ ریکھ کے لئے اسے ایک کام والی عورت کی تلاش تھی جو اس کی بیوی بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ گھر بار سنبهال سکے ۔پچھلے دو سالوں میں اس نے جو بھی کام والی رکھی وہ اس کی بیوی کے غصیلے اور چڑچڑے پن سے تنگ آ کر ایک مہینہ یا اس سے بھی پہلے کام چھوڑ کر بھاگ جاتی تھی ۔فیروز خان کپڑے کا تاجر تھا پر اس گھر داری کے چکر میں الجھ کر اس کے کاروبار کا مندا دن بدن بڑھتا چلا جا رہا تھا ۔تبھی اس کا کراچی جانا ہوا اور کراچی میں مقیم اس کے خالہ زاد بھائی نے اسے لڑکی خریدنے کا مشوره دیا اور اسے بہروز سے ملوا دیا ۔
شازی کے لئے فیروز کا گھر عقوبت خانہ سے کم نہ تھا۔ڈری سہمی شازی کے لئے یہ دنیا ایک جنگل ثابت ہوئی تھی ایک شکنجے سے نکلی تو دوسرے میں پھنسی ۔فیروز خان ایک نہایت سخت گیر انسان تھا اور اس کی بیوی ایک جل ککڑی ۔طویل بیماری نے اسے بیحد شکی مزاج اور غصیلی بنا دیا تھا ۔اس کے دماغ پر ہر وقت یہی خوف سوار رہتا کہ آج نہیں تو کل فیروز اس کی بیماری سے تنگ آ کر دوسری شادی کر لے گا اور اسے اور اس کے بچوں کو اپنی جنت سے بیدخل کر دے گا۔
شازی کی ،” گلبدن “، سے پہلی ملاقات کسی طور خوشگوار نہیں تھی ۔
کراچی سے پشاور تک کا تمام راستہ شازی نے رو کر یا سو کر گزارا تھا ۔آنے والی زندگی میں اسے کیا کیا خدشات درپیش ہو سکتے تھے وہ سب اس کے لئے بے حد ڈراؤنے خواب کی مانند تھے ۔پشاور کے قصہ خوانی بازار کے پیچھے فیروز خان کا گھر تھا ۔شازی کو اس نے ٹوپی والا برقع پہنا رکھا تھا ،جسے اس نے اندر سے کس کے پکڑ رکھا تھا ۔گویا یہ برقع ہی اسکی واحد پناہ گاہ تھی جس کے اندر وہ محفوظ تھی ۔عجیب بد نصیبی تھی ،یہ جاننے کے باوجود کہ فیروز خان نے اسے اس کے بےغیرت شوہر سے خریدا تھا وہ فیروز کے پیچھے پیچھے اس کے نقش پا پر چلتی جا رہی تھی ۔غالباً اس کے پیچھے وہ سیر حاصل واحد کلام تھا جو فیروز نے اسے خریدنے کے بعد اس سے کیا تھا ۔
“دیکھو لڑکی ! تم جو بھی ہو جہاں سے بھی آئی ہو مجھے اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ،بار بار بات دہرانے کی مجھے بلکل عادت نہیں اس لیے میں جو بھی کہہ رہا ہوں اسے اچھے سے ایک بار سن لو اور اپنے دماغ میں بیٹھا لو۔میرے نزدیک تمہاری قدر و قیمت صرف ایک بكری جتنی ہے جب تک یہ بکری یعنی تم مجھے فائدہ پہنچاؤ گی میں بھی تمہارے کھانے پینے کا تمہاری عزت کا خیال کروں گا پر اگر تم نے یہاں سے کہیں بھاگنے کی کوشش بھی کی تو یاد رکھنا کہ تمہاری وہ کوشش کامیاب ہونی چاہیے ورنہ میں تمہیں زندہ دفن کر دوں گا اور دوسری بات یہ جان لینا کہ یہ دنیا جانوروں سے بھری پڑی ہے جب تک میرے ساتھ رہو گی محفوظ رہو گی مجھ سے الگ ہوتے ہی بھیڑیوں کے غول کے غول تمہیں ادھیڑنے آ کھڑے ہوں گے۔اور ہاں تمہیں شکر کرنا چاہیے کہ تمہارے شوہر نے تمہیں مجھے بیچا ہے اور میرے ساتھ تمہاری عزت محفوظ ہے کیوں کہ میں تمہیں گھر کی چار دیواری میں رکھنا چاہتا ہوں ،ورنہ یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو تم جیسی لڑکی کو چند پیسوں کے عوض کسی بھی چکلے پر بیٹھانے پر دیر نہیں کرتے ۔تو اب فیصلہ تمہارا ہے ۔”
اور تبھی شازی نے فیصلہ کر لیا تھا اسے تقدیر پر راضی رہنا تھا کہ میرا رب تو وہ ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں سے نکال کر مصر کے تخت پر بٹھانے والا تھا ۔
فیروز لمبے لمبے ڈاگ بھرتا بازار میں سے راستہ بناے چلا جا رہا تھا اور شازی کسی بطخ کے بچے کی طرح تیز تیز قدم اٹھاے اس کے پیچھے پیچھے تھی ۔فیروز کے لبوں پر ایک مسکراہٹ بجلی کی طرح کوندی اور پھر غایب ہو گئی ۔بلا شبہ اس نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا تھا ۔
گھر جاتے ہی فیروز سیدھا گلبدن کے پاس پہنچا اس کی بوڑھی ماں اس کے دونوں بچوں کو کھانا کھلا رہی تھی ۔گلبدن نے بستر پر لیٹے لیٹے مسکرا کے چمکتی آنکھوں سے فیروز کا استقبال کیا پر برقع میں ملبوس شازی پر نظر پڑتے ہی اس کا تنفس تیز ہونے لگا اور آنکھوں سے شعلے برسنے لگے اس نے گلہ کرتی نظروں سے صدمے سے چور آواز میں فیروز سے اس وجود کا تعارف مانگا ۔شازی ان کی زبان سے نا واقفیت کے باوجود چہرے کے اتار چڑھاؤ سے پوری کہانی سمجھ گئی اس ایک لمحے میں اسے گلبدن پر بہت ترس آیا ،اس کے چہرے کا اڑا رنگ بتا رہا تھا کہ اس کی مملکت پر قبضہ ہونے کو ہے ۔
تبھی فیروز نے گلبدن کو وضاحت دی کہ وہ شازی کو ملازمہ کی حثیت سے لے کر آیا ہے تو جیسے اس کے دل نے پھر سے دھڑکنا شروع کر دیا ۔فیروز نے محبت سے گلبدن کا فالج زدہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے ہونٹوں سے چوما ۔اس ایک لمحے نے شازی کو باور کروایا کہ گویا وہ کسی ملکہ کے روبرو حاضر ہے گلبدن کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے باہر نکلنے لگی تبھی اس نے شازی کو زور سے ڈپٹ دیا اور باہر نکلنے کا اشارہ کیا ۔شازی فورا کمرے سے باہر نکل گئی اور ایک طرف ہو کر کھڑی ہو گئی اس کی آنکھیں اس کا دل، جسم کا رواں رواں سہما سہما نوحہ کناں تھا ۔
شازی فجر کے اول وقت میں اٹھتی نماز ادا کرنے کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتی اور باورچی خانے کا رخ کرتی ۔بچوں کو گرم دودھ دیتی ،گلبدن کو اٹھا کے بٹھاتی رفع حاجت کرواتی ۔ناشتے کا بندوبست کرتی ۔کپڑے دھوتی سارے گھر کی صفائی کرتی،جانوروں کا چارہ کاٹتی،فیروز کی ماں کو دباتی بالوں میں تيل ڈال کے چٹیا کرتی ۔دوپہر کے کھانے کا بندوبست بچوں کو قرآن پڑھاتی ۔پھر رات کے کھانے کی تیاری ۔غرض سارا دن کولہو کے بيل کی طرح کام میں جتی رہتی ۔پر یہ سب اتنا آسان نہیں تھا چھوٹی سی کسی غلطی پر یا بھاگ کر بات نہ سننے پر گلبدن اس پر خوب غصہ کرتی ،کبھی کوئی چیز اٹھا کے دے مارتی تو کبھی گرم دودھ اس پر پهينك دیتی ۔بستر پر پڑے پڑے بھی اپنے آدھے ادھورے وجود سے خوب کام لیتی اور اسے تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی ۔فیروز تو اسے گھر میں ڈال کے بھول گیا تھا گویا سارا دن وہ اس کی ماں اور گلبدن کے رحم و کرم پر ہوتی ۔اس پر بھی گلبدن کی تسلی نہ ہوتی تو دل کھول کر فیروز کو اس کی شکایتیں لگاتی اور اکثر فیروز بھی اس پر ہاتھ اٹھاتا پر وہ سب کچھ خاموشی سے سہہ جاتی ۔کبھی زبان سے ایک لفظ نہ کہتی ۔
پتھر پر بھی پانی پڑے تو اس میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے یہ تو پھر بھی اس رب کے بناے ہوے انسان تھے ۔
آہستہ آہستہ شازی کو ان کی زبان سمجھ میں آنے لگی ۔فیروز کی ماں اور اس کے بچے سب سے پہلے موم ہوے تھے وہ بھی ان بچوں میں اپنے احد سلطان کو ڈھونڈتی اور دل کھول کے پیار نچھاور کرتی ۔
فیروز کام کے سلسلے میں اکثر کراچی آتا جاتا رہتا تھا ۔اس بار اسے کچھ دن مزيد رکنا پڑ گیا ۔پر اب وہ گھر کی طرف سے بے فکر رہتا تھا اس کے دل کی تسلی کو یہ خیال بہت تھا کہ شازی نے اس کی ساری ذمہ داری اٹھا رکھی ہے
۔گلبدن کو ہلکا ہلکا بخار تھا شازی نے دوا دینے کی کوشش کی پر گلبندن کے دل میں شک آ گیا کہ شازی اسے مارنا چاہتی ہے ۔اس لیے شازی کے اصرار کے باوجود اس نے دوا لینے سے انکار کر دیا ۔صبح شازی اسے رفع حاجت کے لئے لے جانے آئی تو دیکھا گلبدن بخار میں تپ رہی ہے ۔رفع حاجت کو جاتے وقت گلبدن کے دل نے اپنی بےبسی پر خوب ماتم کیا ۔اسے سہارا دیے اس کا سارا بوجھ خود پر لادے شازی بھی رو پڑی ۔وہ جانتی تھی گلبدن اس کی زبان سے نا بلد ہے پھر بھی وہ اسے تسلی دیے گئی ،”باجی آپ دل تھوڑا نہ کرو جی ،آپ چنگی بهلی ہو جاؤ گی بس تھوڑی ہمت کرو آپ تو بہت ہمت والی ہو “۔گلبدن زبان سے نا بلد ضرور تھی پر جذبات سے نہیں ،شازی کی روہانسی آواز اس کے دل پر تازیانے کی طرح پڑی ۔یا اللّه !یہ کیسی لڑکی ہے میں اسے جتنا دھتکارتی ہوں ،پیٹتی ہوں اس پر تو اثر ہی کوئی نہیں ،رات کو مار کھاتی ہے صبح پھر میرے آگے خدمت بجا لانے کو آ موجود ہوتی ہے ۔گلبدن نے شازی کو دھکا دے کر پیچھے کیا اور اپنے ہی وزن پر زمین پر جا گری اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی ۔شازی اسے روتا دیکھ کر فورا اسے اٹھانے کو دوڑی پر گلبدن نے اس کے ہاتھ جھٹک دیے اور اپنی بےبسی کا ماتم جاری رکھا ۔تنگ آ کر شازی بھی اس کے سامنے زمین پر بیٹھ گئی اور رونے لگی ساتھ ساتھ وہ گلبدن کے آنسو صاف کرتی رہی ،”باجی آپ نہ رویں ،اللّه آپ کو ٹھیک کر دے گا انشاءاللّه ،یہ گھر آپ کا ہے ،یہ بچے ،فیروز لالہ سب آپ کے ہیں۔میں آپ سے کچھ چھیننیں نہیں آئی ہوں میں تو خود مجبور ہو ۔
” چار مہینوں میں پہلی بار گلبدن نے شازی کو بغور دیکھا اس کے لہجے میں چھپی خود کے لئے ہمدردی اور سچائی محسوس کی ۔گلبندن میں ان چار دنوں میں نمایاں تبدیلی آئی تھی اس نے بلکل خاموشی اختیار کر لی تھی ۔بس آنکھوں سے آنسو بہتے تھے پر زبان خاموش تھی ۔اسے لگ رہا تھا اس کا آخری وقت آ گیا ہے ۔اور اگر اس کی موت شازی کے ہاتھوں میں آنی ہے تو جھٹپٹانا کیسا ؟
شازی نے محسوس کیا وہ خود سپردگی کے اعلی درجے پر تھی ۔شازی کے لئے اب سب کچھ بہت آسان ہو گیا تھا ۔وہ دوائی دیتی گلبدن بنا احتجاج کے کھا لیتی ،شازی کے ہاتھ پر دودھ گراے بغیر پی لیتی ۔شازی کو لات مارے بغیر اس سے مالش کروا لیتی ۔گلبدن نے محسوس کیا کہ وہ خود ایک حالت سکون میں آ گئی ہے ۔شازی اس کے پاس بیٹھ کے قرآن کی تلاوت کرتی اسے دم کرتی ۔اتنے سالوں میں پہلی بار گلبدن کو سکون کی نیند نصیب ہوئی تھی شائد موت کی نیند میں اتنا ہی سکون ہوتا ہے ؟ اس نے دل میں سوچا ۔
ایک ہفتے بعد فیروز لوٹ آیا پر گھر میں کچھ تو بدلاؤ تھا ۔اس نے فورا محسوس کیا تھا ۔گلبدن کا بخار ٹوٹ گیا تھا اور جاتے جاتے اسے ایک تحفہ دے گیا تھا ۔اس بخار یا ذہنی سکون کے نتیجے میں گلبدن کے فالج زدہ پاؤں کی انگلیاں کچھ حرکت کرنے لگی تھیں ۔مطلب اس نے موت کی طرف نہیں زندگی کی طرف صحت یابی کی طرف قدم بڑھایا تھا ۔گلبدن نے فیروز کو ایک ایک بات سے آگاہ کیا کہ شازی نے کس طرح اس کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ شازی کے لئے زندگی آسان ہو رہی تھی ۔گلبدن اور شازی کے درمیان تکلف اور سرد مہری دم توڑ گئی تھی ۔گلبدن بھی شازی کا بہنوں کی طرح خیال رکھنے لگی تھی کیوں کہ اسی کی خدمات کی وجہ سے اب گلبدن چھڑی کے سہارے قدم با قدم چلنے لگی تھی ۔پر شازی کی ایک بات پر گلبدن ہمیشہ سرد پڑ جاتی ۔شازی نے گلبدن سے درخواست کی کہ وہ اسے ایک بار لاہور جانے دے وہ اپنی بےبے کو اپنی خیریت بتا کے واپس گلبدن کے پاس آ جائے گی ۔پر گلبدن اچھے سے جانتی تھی جانے والے کب واپس آتے ہیں ۔اور پھر وہ شازی کو کس حق سے روک سکیں گے ؟ایک غلام کی حیثیت سے ؟
جاری ہے……… جاری ہے…….
از قلم ،”عظمیٰ خرم “