لکھ یار

ممتاز مفتی کے نام خط

اسلام علیکم مفتی صاحب ۔

مفتی صاحب آپکے لکھے گئے افسانے آپکی باتیں یقینا مشعل راہ ہیں
آپ اپنی زندگی کا پہلا سچ “ایلی”بن کر ہی کیوں لکھتے ہیں
شائد آپکے لئے بھی اس جھوٹ کے معاشرے میں سچ کہنا بہت مشکل تھا مگر مجھے شہزاد سے آپکی مخلص محبت یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ آپ شہزاد کی محبت تھے یا ضرورت”
جب سے آپکا شاہکار “تلاش” پڑھا ہے تب سے اپنے رب سے تعلق مضبوط ہوتا رہا ہے اس پر غور و فکر کرنے والوں کے لئے بہت ساری نشانیاں ہیں اپنے رب کو پہچاننے کی۔

سوچنے والوں کے درمیان ، پڑھنے والوں کے لئے آپ نے بہت سی آسانیاں پیدا کر دی ،

مفتی صاحب آپ نے انتہائی بے باکی و سمجھداری سے اس کتاب میں اسلام ، قرآن ، مسلمان کی شناخت کروائی۔

آپکی تلاش پڑھتے ہوئے ہوں محسوس ہوا جیسے کوئی عالم سامنے بیٹھ کر انسان کو اپنے رب کی پہچان کروا رہا ہے ۔

اسلام پر جب آپکا افکار پڑھا جیسے کسی بہت بڑے عالم و مفتی کی کتاب میرے ہاتھ میں ہو اور میں لفظ لفظ پڑھ کر اس میں ڈوبتی گیی اسلام کے قریب ہوتی گئی اور انسان کیا چیز ہے اس کو سمجھنے لگا۔قرآن پر لکھتے ہوئے آپکا عکس میرے سامنے ایک عالم کی طرح ابھرا
“آپ کا لکھا ہوا ایک جملہ جس میں آپ نے کہا کہ “مجھے جو سمجھ آیا اسلام اسکا مطلب ہے “محمد اس نے دل و دماغ کو سن کر دیا میں کچھ لمحے کے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کو سوچنے لگی کہ کس قدر شفیق و رحیم ہمارا نبی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم )

آپ نے جو مسلمان پر لکھا اس سے میں یہی سمجھ سکی کہ مفتی صاحب نے مذہب کا بخوبی مطالعہ کر رکھا ہے،

اور جب آپکے قلم سے “انسان” کے بارے میں لفظ نکلے تو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی Humanist اپنے لفظوں سے انسان کی تعریف کر رہا ہے۔

آپکی وہ نصیحتیں جو آپ نے کرنے سے منع کیا ان میں بھی کئی نصیحتیں چھپی ہیں ، سوچ ، غور و فکر، جستجو ، راہ حق کی نشانیاں صاف نظر آ رہی ہیں ۔
ہاں آپ کی نصیحتوں کی روشن شمع میں میں اس موڑ پر ہوں کہ میری تلاش ختم ہو چکی ہے۔

مفتی صاحب آپ آج ہم میں موجود نہیں مگر آپکا عکس کلی طور ہمارے بیچ ہی موجود ہے۔
آپ کے لفظ کی بدولت آپ زندہ و جاوید ہنستے بولتے ہم سے باتیں کر رہے ہیں ۔
آپکے قلم سے نکلے لفظ آج بھی روانی و بے باکی سے چلتے ہیں
اللہ کی تلاش میں ہی سر گرم نظر آتے ہیں آپکا مکتب آج بھی آباد ہے آج بھی اردو ادب کی خدمت آپکے مکتب سے ہو رہی ہیں آج بھی مفتی کے آنگن میں اہلیان مفتی ادبی محفلوں کو سجاتے ہیں
آپکے نام کے آپکے لفظوں کے زیر سائے ادب تخلیق ہو رہا ہے لفظ بہہ رہے ہیں ، کہانیاں چھپ رہی ہیں لیکن کیا کہانیاں چھپ رہی ہیں میری سمجھ سے بالا تر ہے ۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے
کہنے کو بہت کچھ ہے ابھی لبیک باقی ہے ابھی آپا تک رسائی بھی نہیں ہوئی
پھر کبھی لکھنے کا موقع ملا تو ضرور لکھوں گی

والسلام
آپکے لفظوں کے زیر سائے بڑی ہو رہی
اک عام سی لڑکی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button