لکھ یار

برکھا رت…… ارسلان شیخ

برکھا رت کیا ہے بتا سکتے ہو مجھے؟
لیں جی مجھے کیا پتا ہے بھلا مجھے تو اتنا پتا ہے کالے بادل بن آتے ہیں گرج چمک ہوتی ہے مرضی ہو تو برس جاتے ہیں نہ من چاہے تو بن برسے چلے جاتے ہیں
اچھا چلو یہ بتاؤ یہ بن برسے بادل آخر کہاں جاتے ہیں؟
بن برسے بادل اپنے گھر چلے جاتے ہیں
میں اس کی برجستگی اور معصومیت پر کھلکھلا کر ہنسا بھئی بہت تیز ہو آپ تو۔۔۔
آپ ہنستے ہو اس نے پر شکوہ لہجے میں کہا
میں نے ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا ان بادلوں کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا مگر یہ لڑتے جھگڑتے نہیں پریشان نہیں ہوتے شکوہ نہیں کرتے ایک موسم ہوتا ان بادلوں کا اور یہ بادل صبر کرتے ہیں اس موسم کا انتظار کرتے ہیں بارش کی قطروں میں نرمی ہوتی ہے طمانیت ہے ایک جلترنگ بجتی ہے بارش سے چاہے یہ پہاڑوں پر برسے چاہے صحرا میں چاہے جنگل ہو یا کوئی کچا مکان بارش کا اپنا راگ ہوتا ہے جو روح کو مسحور کر جاتا ہے کبھی کسی چھت سے ٹپکتا پانی دیکھا ہے جہاں پانی کا قطرہ گرتا ہے تھوڑی دیر بعد وہاں گڑھا پڑ جاتا ہے مگر بارش سے کبھی گڑھے پڑتے دیکھے ہیں؟ نہیں نا یہ برکھا کی نرمی کا کھلم کھلا ثبوت ہے دیکھو برکھا صبر کرنا سکھاتی ہے کہ اتنے لمبے انتظار کے بعد بھی برسو مگر احتیاط سے کہیں باغوں میں کھلے غنچے شاخوں پر ہی نہ ٹوٹ جائیں
اور کبھی کبھی بے موسم کی برکھا بھی ہوتی ہے جیسے خوشی اور غم میں ہم بے اختیار رو پڑتے ہیں ویسے ہی اکثر بے موسم کی برکھا ہوتی ہے اچانک چھم چھم اترتی ہوئی
بے موسم کی برکھا آسمان کے آنسو ہیں
دیکھو برکھا رت آئی ہے گھبراؤ مت یہ بہت مہربان ہے لوگ بھاگتے ہیں اپنی قیمتی چیزیں سنبھالنے میں لگ جاتے ہیں جب کہ یہ برکھا تو اس لائق ہے کہ اس کا استقبال کیا جائے بانہیں پھیلا کر خود کو اس میں بھگو کر
بارش کے قطرے چہرے کو دھوتے ہوئے گدگدی کرتے سر سے پیر تک بہتے چلے جاتے ہیں جیسے کوئی ماں بچے کو بانہوں میں بھینچے کھڑی ہو

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button