سرگوشی……محمد نعیم
موت جب اپنے چنیدہ شکار کو درد کے شکنجوں میں کس لیتی ھے تو جسم کے بوجھ سے آزاد ھونیوالی روح آخری ہچکی کی صورت کرتی ھے “ دیکھ لو اے اپنی دنیا میں مست لوگو میں بھی کسی کی جان تھا میں بھی کسی کا مان تھا میرے بغیر بھی محفلیں بیکار ھوجایا کرتی تھیں لیکن یہ موت وہ ظالم شکاری ھے جسکے شکنجے سے کوئی شکار نکل نہیں پایا اسکا نشانہ کبھی خطا نہیں گیا “ اور زندہ اجسام اس بے روح لاشے کی طرف دیکھتے ھوئے سرگوشی کرتے ھیں “ کیا ہی اچھی موت مرا ھے ، کیا آدمی تھا ، محفلوں کی رونق تھا ، خوشی غمی کا ساتھی تھا آج یہ بھی چلا گیا “ اور زمین ان زندہ اجسام کو دیکھتے گوئے ہوا میں سرگوشی کرتی ھے” میرا پیٹ ابھی نہیں بھرا لاکھوں آگئے ، کروڑوں آنیوالے ھیں میرے اوپر پاؤں اکڑ کر رکھنے والوں کا وجود بھی مٹی ھوگیا جو اپنی قیمتی پوشاکوں پر گرد نہیں پڑنے دیتے تھے انکا وجود مٹی میں گم ھوگیا نشان تک باقی نا رہا” پھر ان سب سے پرے ایک کونے میں زندگی کھڑی مسکراتے ھوئے سرگوشی کرتی ھے “ اے پاگل انسان تو سمجھ ہی نا پایا موت میرا دوسرا روپ ہی تو ہے!!”
اها واه