شخصیت پرستی – تحریر فریحہ حمید چوہدری
میں شخصیت پرست نہیں بت پرست ہوں،کیونکہ اس دور کا ہر شخص مبتلائے عشق ہے،روگ بجوگ کے دھندے میں ملوث،آسماں سے ستارے لاتا ہے اور اپنی نظر اتارتا ہے۔۔صحن عشق کے الاو میں خود ہی معشوق بن کے جلتا ہے ۔ اشخاص اب نہیں ملتے،وہ جو مینارہ نور تھے۔۔۔ راستہ دکھانے والے جگنو،روشنی کے فانوس،ہمدرد ،غم گسار،بلاشرط وفاداری کے نسخے،رابطوں کے پل، صدق ومہر کی گٹھڑیاں،بے پتوار کشتیوں کے ملاح،بے وجہ چاہ کے سلسلے۔۔۔محبت کی ڈائریوں میں مدفون ہوئے اب تو یہ عالم ہے،میدان زیست میں اپنا تاج اپنا تخت اٹھائے، کاندھوں پر اپنے بت کو دھرے ،میں کی پرکار،خود کا دائرہ،ذات کا خیمہ لے کر صبح سویرے داخل ہوتے ہیں ،پکارتے ہیں ” دیکھو میں کون ہوں؟میری کاریگری ،صناعی کا کرشمہ دیکھو،دیکھو کیسا تراشا ہے میں نےخود کو، میں کتنی بڑی بجھارت ہوں ہے کوئی جو مجھکو بوجھے! میرے کلام کی پرتیں سمجھو،زعم میرا ساتھی،پہچان کے گورکھ دھندے،سبھی کچھ تو ہے۔ کہیں صدا بلند ہوتی ہے،ادھر دیکھو تو ذرا مرے حسن کدے کی رونق،نقش گری کی قیامتیں___! حسن نظر پر ضرب کاری نہ لگے تو کہنا۔۔۔ ہم خود ہی در ذات پر دستک دیتے ہیں ،کون کہتے ہیں خود ہی ہو بولتے ہیں،اپنے بت پر چڑھاوے داد کے چڑھاتے ہیں۔۔۔ پرستش کی اور گھنڈیاں کتنی ہیں؟خدا تو بس آسماں پر ہے___!