لکھ یار

کاش تم رک جاؤ…تحریر :عبداللہ عبد

-کاش تم میری برتھڈے تک رُک جاؤ۔

-مگر کیوں ؟ کیا فرق پڑتا ہے کئی جنم دن تم نے میرے بغیر گزارے تم بڑھتے ہی رہے رُکے نہیں اور کئی جنم دن تم میرے بغیر گزار دو گے اور تمھیں بوڑھا ہونے کا احساس تک نہ ہو گا۔۔

-مجھے امید ہے تم رک جاؤ گی ، میں چاہتا ہوں سب سے پہلے تم مجھے وش کرو۔ کچھ خواہشیں عجیب سی ہوتی ہیں ضروری بھی اور غیر ضروری بھی

-اگر میں بھی کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دو تو مجھے مت جانے دینا۔۔۔

-میں نے تجھے چھوڑا ہی کب ہے یہ بتا ؟ کبھی چھوڑا ہو ؟ کبھی ؟ مگر قید کرنے کا بھی حوصلہ نہیں آزادی تو حق ہے تمھارا جب چاہو اس حق کا استعمال کرو

-اب تمام پرانی باتیں میری ہتھیلی پہ مت رکھ دینا پلیز

اور اب یہ عالم ہے کہ تو جا چکی تیری رمک تک باقی نہیں ہاں شاید کچھ دن، کچھ دن تیری تصویر آنکھوں کے سامنے رہے ۔ جب تم نہیں تھی تو ایک امید تھی میرے پاس تمھارے لوٹ کے آنے کی، جیسے الکیمسٹ میں موجود وہ گلاس کی دکان والا بوڑھا جو ہر دفعہ عمرہ اور حج پر جانے والے زائرین کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا اور روتا،، مگر جب اس کے پاس اتنا مال و متاع جمع ہو گیا تو بھی اس نے جانے سے انکار کر دیا کہ میرے جینے کی وجہ یہی امید ہی تو ہے اگر میں چلا گیا تو یہ امید ختم ہو جائے گی اور شاید جینے کی وجہ بھی،،،،،،، مگر میں شاید اس امید کو بھی اپنے ہاتھوں سے دفن کر بیٹھا ہوں_ ہمیشہ کے لئے

عبداللہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button