ممتاز مفتی کیا چاہتے تھے؟
تحریر: محمد سلمان
جب ممتاز مفتی رح کو اُن کی والدہ بیعت کے لئے لے کر گئیں تو اُن کو بیعت نہیں کیا گیا پر اُن کی والدہ کو یہ خوشخبری ضرور سنائ کہ آپ کا بیٹا بہت نام کماۓ گا اور اپنی جگہ ٹھیک ہوگا.
یہ بیعت کا معاملہ بھی عجیب ہے. کسی کی قسمت میں ہے اور کسی کے لئے نہیں.
شیخ شہاب الدین سہروردی رح فرماتے ہیں. “جس کا کوئ مرشد نہیں، اُس کا مرشد شیطان ہے.”
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر کسی فرد کا مرشد ضرور ہے. فرق یہ ہے کہ کسی کا مرشدِ حق ہے تو کسی کا مرشدِ باطل.
جب میں نے اپنے شَیخ سے اس بارے دریافت کیا تو اُنھوں نے کہا کہ “بیٹا اصل بیعت باطنی ہوتی ہے. ظاہری بیعت ایک رسم ہوتی ہے، اگر ارادہ رکھتے ہو تو پوری کئے دیتے ہیں.”
باطنی بیعت جب کہیں اور جہاں کہیں ہوتی ہے، منظوری سے ہوتی ہے. اور مرید یا عقیدت مند کا میلان و رجحان قدرتی طور پر اپنے مرشدِ حقیقی کی طرف ہو جاتا ہے اور وہ فیضِ باطن بھی پاتا ہے اور مرشد سے اپنے تعلق کو ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے یہ فیض عام لوگوں کی نظر میں اس کا علم یا فن گردانا جاتا ہے.
ممتاز مفتی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے.
اللہ تعالٰی نے ممتاز مفتی کو جس کام کے لئے چنا، وہ اپنا کام بخوبی کر گۓ. اور اُن کا اور اُن کی والدہ کے رجحان کا بھی پتا چل گیا.
ممتاز مفتی نے اپنے پیغام کے ذریعے لوگوں کے ذہن کو آزادی دی اور اللہ کی طرف بلایا. اُن کا اپنا ایک منفرد انداز تھا. جو کہ کئ علماءِ ظواہر کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا. مگر صوفیاء حضرات نے ممتاز مفتی کے انداز کو سراہا. میں نے خود صوفیاء حضرات کو ممتاز مفتی کو quote کرتے ہوۓ دیکھا. جی ہاں یہ وہی صوفیاء ہیں جنھیں ممتاز مفتی کے بہت سے ناسمجھ پیروکار طعنوں سے نوازتے ہیں، پیری مریدی اور گدی نشینی کے دلدادہ جیسے الفاظ کا استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے. مگر وہ برا نہیں مناتے.
علاوہ ازیں خود کو ممتاز مفتی کی کتابوں میں قید کر لینے کا نظریہ بھی ممتاز مفتی کی تعلیمات کو نا سمجھنے کی ایک مثال ہے. جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ جس نے ممتاز مفتی کے نظریات کو سمجھ لیا وہ مثنوی بھی دیکھے گا، وہ غزالی کو بھی پڑھے گا. کیونکہ مفتی آزادی اور وسعتِ علم کے قائل تھے. انھوں نے علم کی تلاش کے لئے direction دی ہے، محبتوں کا درس دیا ہے.
کاش کہ ہم سب باہمی رنجشوں کو بھلا کر صحیح معنوں میں مفتی صحب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں.
خیر اندیش