لکھ یار

ممتاز مفتی کے نام خط از محمد سمیع اللّٰہ

خط بنام مفتی

مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ میں نے خط کے شروع میں آپ کو مخاطب کیسے کرنا ہے, ہمارے مفتی
پیارے مفتی! محب مفتی یا محبوب مفتی_
میں آج کے دور کا اک لڑکا بلکہ اک بگڑا ہوا لڑکا آپکو خط لکھنے کی جسارت کیسے کر بیٹھا, یہ بھی نہیں جانتا کہ خط آپ تک پہنچ بھی پائے گا کہ نہیں یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ خط میں آپکو میں کیوں لکھ رہا ہوں
لیکن ہو سکتا ہے اس کی وجہ میرے دور کی نارسائیاں ہوں کوئی تشنگی ہے جو جاتی نہیں,
کوئی بے بسی ہے جو بے حد کی طرف گامزن ہے_

”محبوب بناو گے تو وہ محبوبانہ شان دکھائے گا “مفتی صاحب میرے دور میں یہ آسان نہیں ہے
مجھ میں اب ویسا ظرف نہیں ہے, ہمیں اپنی کمی
ہی پشیماں کرتی ہے, بس ہمیں محبت چاہیئے گو کہ ہم نفرت ہی بانٹتے رہے,
آپ خط کے جواب میں بتائیے گا ہم صحیح کر رہے ہیں ناں؟
ایک بار آپ نے مجھے کہا تھا یا شاید ایسا لگا کہ آپ نے مجھے کہا
”کہ تم جس کی تلاش میں ہو, وہ بھی تمہاری تلاش میں ہے“_
مجھے یہ پوچھنا تھا کیا ایسا ممکن ہے , کیا سچ میں؟ تلاش کا مرحلہ بہت کٹھن ہے مگر احساس دلکش ہے اور اب تو اور بھی دلکش کہ یہ رائیگاں نہیں ہے, کیا سچ میں میری تلاش کے پار ایک تلاش ہے جو مجھ سے جڑی ہے؟
لیکن ہمیں یہ بھی لگتا ہے
بس ہماری تلاش ہی اصل ہے باقی سب کی خام کیا ہمیں ٹھیک لگتا ہے؟ اور پھر میری کھوج مجھے ستاتی کیوں ہے بتائیں گے ناں_؟

اے مفتی , ہمارے مفتی ، پیارے مفتی
ہم تو آخری مرحلے میں بھی نہیں رکھتے, بس کربلا کو قصوں کے طور پہ پڑھتے ہیں, ہاں سارے قصوں سے عقیدت رکھتے ہیں, تو کیا عقیدت کافی ہو
گی ؟ ہاں کچھ آنسو بھی گر جاتے ہیں, وہ کچھ قیمت رکھیں گے؟ ہاں ایک گہرا سا درد بھی؟
آپ درد کے بارے میں لکھیے گا اس درد کے بارے میں جو ہم دوسروں کو پہنچا کر من و عن سے راحت محسوس کرتے ہیں
پیارے مفتی ہمیں لکھیے گا درد کی اصل حقیقت
ہمیں یہ پتہ ہی نہیں, درد کس بات پہ ہے؟ یہ چپ کیوں ہوتا ہے , یہ شور کب کرتا ہے؟؟ اگر یہ قفل زدہ ہے تو چابیاں کس کے پاس ہیں, دل کے دروازے کو کس دستک کا انتظار ہے ؟؟
کھلتا ہی نہیں , یا ہم کھولتے نہیں
ہمیں کھولنے کا علم ہے نہ بند کرنے کا پتہ_ آپ کھولنے کا منتر بھیجنا, ہمارے دور کے لوگ بشمول میں, درد سہنا بھی نہیں جانتے اور ہاں سچ لکھوں تو بیان کرنا بھی
ہمیں لگتا ہے خط جن کشتیوں پہ پیام بر تک بھیجے جاتے ہیں, ان میں خود غرضی اور اناؤں کے پتھر لدے ہیں, جب ہی تو کناروں پہ ٹکے رہتے ہیں,
یا مدوجزر میں پھنس جاتے ہیں یا اس بوجھ سے ہی ڈوب جاتے ہیں_ آپ جواب بھیجنا اور آس
بھی, جلدی بھیجیے گا, کہ اب عمروں میں لمحوں میں برکت بھی نہیں لگتی

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button