لکھ یار

ممتاز مفتی کے نام خط از عامر علی باجوہ

خط بنام مفتی

اللہ پاک ممتاز مفتی کو کروٹ کروٹ آسانیاں دے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرماۓ۔

خط لکھنے کی جسارت تو نہیں کرسکتا ہاں البتہ اگر بالمشافہ ملاقات ہوتی ہو ممکنہ طور پر کیسی ہونی تھی وہ مکالمے کی صورت میں پیش کررہا ہوں۔

(مفتی جی سے معذرت کے ساتھ کہ شاید اُن کے احساسات اور نظریات کی ترجمانی کرنے کی صلاحیت ہم میں کہاں۔۔۔۔۔۔اس لیۓ گستاخی ہی سہی۔۔۔۔)

“سر ہمیں بتاٸیں کہ کیا ہمارا شعور ہمارا خیر خواہ ہوتا ہے؟”

“پتر! شعور تو ہمیشہ ہمارا خیر خواہ ہوتا ہے یہ پوچھو کہ ہم اپنے شعور کے کتنے خیر خواہ ہوتے ہیں”

“وہ تو ہم بہت کم ہوتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے“

“تمہارا خیال درست ہے ہم بہت کم خیر خواہ ہیں اپنی ہی ذہنی استطاعت اور شعور کے۔۔۔ کیونکہ شعور کی پختگی ہماری اس سے خیر خواہی کی مرہونِ منت ہے۔۔۔۔ہماری منفی سوچ، معاشرتی حسد اور جھوٹ ہمارے شعور میں کبھی پختگی نہیں لا سکتے“

”سر! تو کیا یہ سب کچھ ہم میں معاشرے اور سماج کی وجہ سے آتا ہے یا یہ خامیاں پیداٸشی یا نسلی ہوتی ہیں“

“او یار۔۔۔ اس سوال کا جواب دینے کیلۓ تو میں نے ”تلاش“ لکھا چلو میں تمہیں ایک اور مثال سے سمجھاتا ہوں۔

”مفتی جی میں بہت نالاٸق سا بندہ ہوں آسان مثال سے سمجاٸیے گا تو سمجھوں گا“

“نالاٸق کوٸ نہیں ہوتا بیٹا جی۔دیکھو گھڑی کی سوٸیوں پر غور کیا ہے کبھی؟“

”جی سر ۔۔۔۔ ایک سیکنڈ والی سوٸ جو تیز چلتی ہے ایک منٹوں والی قدرے سُست اور ایک گھنٹوں والی جو لگتا ہے کہ مسلسل ساکن ہی ہے“

“بس پھر مجھے بتاٶ کہ سیکنڈ والی سوٸ کا تیز چلنا اُس کی خامی ہے یا خوبی اور یہ خامی یا خوبی اُس کی پیداٸشی ہے یا باقی سوٸیوں یا مشینری کا اثر ہے؟“

”سر پھر آپ نے مشکل سوال ڈال دیا ۔۔۔ سیکنڈ والی سوٸ کا تیز چلنا میری نظر میں تو اسکی خامی یا خوبی نہیں بلکہ اسکی انجٸنرنگ فطرت ہے“

نہ پُتر نا۔۔۔۔دیکھو ۔۔۔مثلاً جب کسی کو اپنے محبوب کا انتظار ہو یا کسی اچھی خبر کا ، تو اسی سوٸ کا تیز چلنا بھی سُست لگتا ہے ۔۔۔تو اُس بندے کی نظر میں تو یہ خامی ہی ہوٸ کہ یہ سُست کیوں چل رہی ہے ۔۔۔ وہ چاہے گا کہ یہ جلدی جلدی اپنے محور کے گرد چکر پورے کرے اور مطلوبہ وقت تک پہنچا دے۔اسی طرح امتحان میں بیٹھے ہوۓ اُس طالبعلم کیلۓ یہ بجلی سے بھی تیز چل رہی ہوتی ہے جس نے آخری پانچ منٹ میں ابھی دو سوالات حل کرنے ہیں اور اُسے اس کا تیز چلنا خامی لگ رہاہوتا ہے۔

”واہ پیر جی واہ۔۔۔۔ میں بات تک پہنچ رہا ہوں بہت اچھا سمجھا رہے ہیں آپ ۔۔۔۔۔واقعی شعور کی آبیاری کیلٸے اُس کو اپنے نظریات اور سوچ کے مرہونِ منت کرنے کے بجاۓ قدرتی انداز میں چلنے دینا چاہیے تاکہ ہم اپنے شعور کے خیر خواہ بن سکیں۔بے شک“

”یار تم تو خود بہت سیانے ہو لیکن شعور تو قدرتی ہے اِس کو قدرتی سمت سے منحرف کرنا ہمارے اختیار میں نہیں ۔ یہ ہمیشہ ہمارا خیر خواہ ہوتا ہے تو ہمیں اپنی مثبت فکر کو اپنی منفی فکر پر غالب کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم بھی شعور کے خیر خواہ ہے۔“

(ایک ادنٰی سی کوشش،امید ہے اہل مفتیان کو پسند آۓ گی)

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button