کتاب : تلاش
باب 11 : پلاؤ کی دیگ
ٹرانسکرپشن : محمد فاران
پلاؤ بھری دیگ
نقل ہے کہ ایک شہر میں ایک مست بابا آگیا . آتے ہی اس نے حکم دیا , کہ ایک بہت بڑی دیگ لاو . دیگ آگئی , تو بولا , اس دیگ کے لائق ایک چولہا بناؤ , اس میں لکڑیاں رکھ کر بھانبڑ لگا دو . چولہا جل گیا , مست نے حکم دیا , کہ دیگ میں پانی بھر دو , اوپر ڈھکنا لگا دو , اسے چولہے پر رکھ دو . اگلی صبح انہوں نے دیگ کا ڈھکنا اٹھایا , کہ وہ پلاؤ سے بھری ہوئی ہے . سارے شہر میں اعلان کر دیا گیا , کہ حاجت مند آئیں , انھیں مفت کھانا تقسیم کیا جائے گا .
اس اعلان پر سارا شہر دیگ پر امڈ آیا . مست پلاؤ کی تھالیاں بھر بھر کر دینے لگے . اگلے روز انھوں نے دیگ کا ڈھکنا اٹھایا , تو دیکھا , کہ دیگ جوں کی توں بھری ہوئی تھی . اس پر شہر میں مست بابا کی دھوم مچ گئی . برتاوے تھالیاں بھر بھر کر لوگوں کو بانٹتے , مگر دیگ جوں کی توں بھری تھی . حاجت مندوں میں ایک فقیر بھی تھا . وہ خالی ہاتھ آتا اور سارا دن کھڑا تماشا دیکھتا رہتا . برتاوے کہتے , میاں تو کیوں خالی ہاتھ کھڑا ہے , برتن لاؤ اور چاول لے لے . وہ کہتا , میں حاجت مند نہیں ہوں .
اس بات پر برتاوے بہت حیران ہوتے , کہ کھڑا بھی رہتا ہے , بٹر بٹر دیکھتا بھی رہتا ہے , مگر کھاتا پیتا نہیں . انھوں نے مست بابا سے بات کی . مست بابا نے کہا , اس شخص کو میرے پاس لاؤ . وہ فقیر کو مست بابا کے پاس لے گئے . مست بابا نے پوچھا , میاں کیا بات ہے , کہ تو سارا دن دیگ کے سامنے کھڑا رہتا ہے , لیکن دیگ کے چاول نہیں کھاتا .
فقیر بولا , میں یہاں چاول کھانے کے لئے نہیں آتا اور نہ ہی اس دیگ کو دیکھنے آتا ہوں , جو سدا بھری رہتی ہے . مست بابا نے پوچھا , پھر تو یہاں آتا کیوں ہے ؟ فقیر بولا , میں تو تیری زیارت کرنے آتا ہوں , تو جو اس شہر کا رب بنا ہوا ہے اور لوگوں کو رزق تقسیم کر رہا ہے .
مست بابا کا چہرہ اچانک بھیانک ہو گیا . وہ چلا کر بولا , ” دیگ کو انڈیل دو . چولہے پر پانی ڈال دو ” . یہ کہہ کے مست بابا نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور شہر سے باہر نکل گیا .