کتاب : تلاش
باب 12 : دشمنی یا خوف
ٹرانسکرپشن : ناہید خلیل
جہاد بھرا جن
ایک اور مغربی دانشور ، البر مشادور نے کہا .”میرے ہم وطنو ، میری بات غور سے سنو ! مسلمان بیدار ہو چکا ہے اور چلا چلا کر کہہ رہا ہے کہ میں موجود ہوں, وہ ہرگز مرا نہیں “
اشیابومان نے کہا ” مسلمان اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے اور وہ آگے بڑھ رہا ہے. پھیلتا جارہا ہے ڈرو کہ اس میں جہاد کی قوت ہے.
فرانس کی وزارتِ خارجہ کے ایک افسر نے 1952 میں ایک بیان دیا کہ ,مسلمان سے خبردار رہو ,وہ عالم نو ( new world ) کی بنیاد رکھ سکتا ہے.
ایک شاندار مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے .ہم فرانسیسیوں نے الجزائر میں اپنی حکومت کے دوران پوری کوشش کی لیکن ہم مسلمانوں کا تشخص نہیں چھین سکے .مسلمان ایک جن ہے جسے فی الحال ہم یورپ والوں نے مقید کر رکھا ہے .اگر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے ,اسے قابو میں نہ رکھ سکے تو وہ پورے یورپ پہ مسلط ہو جائے گا. “
یورپ اور امریکہ کے چند ایک مشاہیر نے بات بالکل ہی کھول کر سامنے رکھ دی , مثلاً برطانیہ کے مشہور وزیراعظم گلیڈ اسٹون نے ایک بیان میں کہا ” جب تک قرآن مسلمانوں کے دل اور دماغوں میں حکمران رہے گا .اس وقت تک ہم اسلامی مشرق کو اپنے قبضے میں نہیں لا سکتے اور بغرض محال لے بھی آئیں تو تادیر تسلط میں نہیں رکھ سکتے.
الجزائر میں سو سالہ فرانسیسی قبضے کی ایک تقریب ہوئی. اس تقریب میں فرانس کے گورنر نے تقریر کی .اس تقریر میں انہوں نے برملا کہہ دیا :
ہم فرانسیسی الجزائر پر اپنے قبضے کو برقرار نہیں رکھ سکتے ,جب تک الجزائری قرآن پڑھتے رہیں گے عربی بولتے رہیں گے. لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ان کے دل و دماغ سے قرآن کو محو کر دیں. “
صرف عیسائیت اور صیہونیت ہی اسلام سے خائف نہیں بلکہ کمیونزم کو بھی پورے طور پر احساس تھا کہ اسلام ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے .
ازبکستان سے اشتراکی پارٹی اپنا ایک روزنامہ “کیزیل “شائع کیا کرتی تھی. اس روزنامے کے 22 مئی 1952 کے شمارے پر ایڈیٹر نے جو اداریہ شائع کیا تھا اس میں انہوں نے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے لکھا تھا , اسلام کو نیست و نابود کیے بغیر کمیونزم کے لیے ازبکستان میں ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں کہیں بھی جڑ پکڑنا ممکن نہیں .”