Talash by Mumtaz Mufti

کتاب : تلاش

باب 12 : دشمنی یا خوف

ٹرانسکرپشن : محمد مزمل

تشخص بدل دو

پھر بقول نومسلم فارنیرز کے Wiser Councils prevailed صیہونی اور عیسائی علماء نے سوچا کہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنا بےکار ہے بلکہ الٹے اثرات کا حامل ہے، اس لیے آسان کام یہ ہے کہ مسلمانوں کا رخ بدل دو۔
مسلمانوں کا رخ بدلنے کے لئے دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ مغربی تعلیم کو عام کر دو۔ مغربی تہذیب کو فیشن میں بدل دو۔ سٹیٹس سمبل بنا دو۔ مغربی خیالات کے زیر اثر مسلمانوں کی توجہ مذہب سے ہٹ جائے گی۔ وہ مذہب کو ایک غیر ضروری چیز سمجھنے لگیں گے اور زندگی کی جانب ان کا رویہ مادی اور سیکولر ہوجائے گا۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی شکل مسخ کر دو۔ اسلام کو بھی عام مذہبوں کی طرح Rituals میں بدل دو۔ مسلمانوں کی توجہ علم، عقل اور تحقیق سے موڑ دو اور انھیں رسمی عبادات، پیر پرستی اور خانقاہی نظام کی طرف متوجہ کر دو۔ اس طرح وہ ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی کی جانب چل نکلیں گے۔ تعویز گنڈے اور وظیفے وظائف کو اپنا لیں گے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان پڑھ اجارہ داروں کی ایک ایسی جماعت قائم کردو جو مسلمانوں کو فروعات میں پھنسائے رکھے۔
اپنے ان منصوبوں میں مغربی اقوام کامیاب ہیں اور انھیں اپنی کامیابی کا پورا شعور ہے۔
فرانس کا بادشاہ لوئی ہشتم جب مسلمانوں کی قید سے آزاد ہوا تو اس نے یورپی عیسائیوں کے ارباب اختیار سے مل کر ایک لائحہ عمل بنایا جس کا مقصد اسلام کو ختم کرنا ور مسلمانوں کو یورپی تسلط میں لانا تھا۔
اس پالیسی ساز کا لائحہ عمل آج بھی پریس میں محفوظ ہے۔ اس کی شقیں مختصر طور پر یہ ہیں:
1۔ مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا کرو۔
2۔ تفرق پیدا ہوجائے تو اسے مزید گہرا کرو۔
3۔ مسلمان ممالک میں نیک اور صالح حکمرانوں کے قیام کو ناممکن العمل بناؤ۔
4۔ مسلمان ممالک میں Corruption کو ہوا دو۔ انتظامیہ میں رشوت اور اقربا نوازی کی رسم ڈالو۔
5۔ عورتوں کے ذریعے اہلکاروں کے اخلاق داغ دار کرو۔
6۔ مسلمانوں میں جذبہ جہاد کو کمزور کرو۔
7۔ عرب ممالک میں پھوٹ ڈالنے کی پالیسی پر عمل کرو۔
بے شک یورپی ممالک اس تخریبی پروگرام میں بہت کامیاب ہیں۔
ان کی سب سے بڑی کامیابی تعلیم کے میدان میں ہے۔ انھوں نے ایک ایسا نظام تعلیم چلا رکھا ہے جس کے تحت مسلمان نوجوانوں میں سیکولر جذبات پرورش پا رہے ہیں۔ وہ مذہب کو تنگ دلی کا نظام سمجھنے لگے ہیں۔ اپنے مذہب اور کلچر پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ مغرب کے میس ‪(‬Mass‪)‬ کلچر نے ہمیں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ انگریزی زبان اور یورپی کلچر ہمارے لیے سٹیٹس سمبل بن چکے ہیں۔‬‬

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button