کتاب : تلاش
باب 3 : نئی نسل
ٹرانسکرپشن : نبیلہ سحر
مظلوم نسل
بھائیو! میں نے 88 سال کے دوران کئی ایک نسلیں جوان ہوتے دیکھی ہیں۔ لیکن آج کی نسل سے زیادہ مظلوم کبھی نہیں دیکھی۔ صلاحیتوں سے بھرپور لیکن مظلوم۔ ہمارے معاشرے نے انھیں رد کردیا ہے۔ انھیں مغرب کے ایجنٹ قرار دے دیا ہے۔ اسلام دشمن۔
میرے ایک دوست ہیں۔ تعلیم یافتہ ہیں، باکردار ہیں، سچے مسلمان ہیں اور تبلیغ کے حامی ہیں۔ ایک روز وہ میرے ہاں تشریف لائے، وہ بے حد خوش تھے۔ ان کے ساتھ 20 سال کا ایک نوجوان تھا۔ اس کی جانب اشارہ کر کے بولے ” الحمدللّٰہ کہ ہمارا تبلیغی کام احسن طریقے سے چل رہا ہے۔”
“انھیں دیکھیے” انہوں نے نوجوان کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ آج سے سے پہلے یہ جینز پہنتے تھے۔ پرنٹڈ شرٹ میں ملبوس تھے اور اب دیکھیے الحمدللّٰہ ہم انھیں صراط مستقیم پر لانے میں کامیاب ہو گئے۔
میں نے نوجوان کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر چینی داڑھی تھی۔ جسم میں گویا جان نہ تھی۔ آنکھیں بجھی ہوئی تھیں۔ بند بند پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ مجھے بلقیس محمود کی نظم کا بند یاد آگیا:
مجھے لگتا ہے امی آپ سب صیاد ہیں میرے
میرے پر کاٹ کر
پنجرے میں رکھ لینے کی خواہش
بس اک خوش رنگ ساطوطا
میاں مٹھو
کہ جب چاہا میاں مٹھو میاں مٹھو کہا
بہلایا
خوش کرلیا
اپنے بڑھاپے کو (اپنی انا کو)
اس میاں مٹھو کو دیکھ کر میرا جی چاہا چیخیں مار مار کر روؤں۔ اتنا روؤں کہ میری بصارت پانی بن کر بہہ
جائے۔ پھر جب میرے دوست پوچھیں مفتی! “تم تو اندھے ہو گئے ہو”۔۔۔ تو میں کہوں، نہیں میں اندھا نہیں ہوں۔ میں نے اتنا کچھ دیکھا ہے ، اتنا کچھ دیکھا ہے کہ اب مزید کچھ دیکھنے کی ہمت نہیں رہی، حوصلہ نہیں رہا، اس لیے میں نے آنکھیں موند لی ہیں۔
نئی نسل پر جو ظلم بڑے اور علمائے دین کر رہے ہیں، اس میں میں بھی شامل ہوں کیوں کہ میں خود بھی تو بڑا ہوں۔
دقت یہ ہے کہ میں دورخہ ہوں۔ قدرت نے مجھے تماشا بنا رکھا ہے۔ میں بیک وقت بڑا بھی ہوں چھوٹا بھی ہوں۔ صاحبو! لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک عمر ہوتی ہے جسمی عمر ۔ یہ غلط ہے۔ عمریں تین ہوتی ہیں۔
“جسمی عمر” “ذہنی عمر” اور “جذباتی عمر”۔ میری جسمی عمر 88 سال ہے، ذہنی عمر 30_35 ہوگی اور میری جذباتی عمر 17 سال سےآگے نہیں بڑھ سکی۔ کوششوں کے باوجود آگے نہیں بڑھ سکی۔