کتاب : تلاش
باب 8 : جہاں گُڑ ہو گا، وہاں چیونٹے تو آئیں گے
ٹرانسکرپشن : رضوانہ رائے
بالشتے نو گزے
اسلام کی سادگی کی بات پر مجھے محمد فاضل یاد آگیا – محمد فاضل جہلم کے کسی گاؤں کا رہنے والا ایک ان پڑھ مسلمان تھا- قسمت آزمائی کے لئے وہ کسی نہ کسی طور یورپ میں جا پہنچا- پیرس میں کئی سال رہتا رہا- سارا دن ہوٹل میں برتن دھوتا- باورچی خانے میں جھاڑو دیتا- رات کو کسی فٹ پاتھ پر جا کر پڑ رہتا-
آٹھ دس سال کے بعد پتہ چلا کہ محمد فاضل پیرس کے سب سے پوش ہوٹل کا چیف شیف بن گیا ہے۔ شیف باورچی کو کہتے ہیں۔ ہوٹل میں تمام کھانا پکانے کی زمہ داری شیف پر ہوتی ہے- شیف کی تنخواہ ہوٹل کے چیف مینیجر کے برابر ہوتی ہے۔
میں فاضل کو جانتا تھا، یہ خبر سن کر کہ وہ پیرس کے ایک پوش ہوٹل کا شیف بن چکا ہے، مجھے یقین نہ آیا- یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک جہلمی ان پڑھ جوان چند سالوں میں اتنے اونچے مقام پر پہنچ جائے۔
میں نے اپنے فارن آفس کے دوست سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ان پڑھ شخص بڑے ہوٹل کا شیف بن جائے-
میرا دوست ہنسا، کہنے لگا” مفتی! پاکستانی عجیب قوم ہے۔ یہاں سست الوجود ہوتے ہیں ، جزباتی ہوتے ہیں ، منافقت اور کرپشن میں لت پت ہوتے ہیں۔ مغربی ممالک میں پہنچ کر پتہ نہیں انہیں کیا ہو جاتا ہے۔ جن بن جاتے ہیں ۔ ہمارے ایک رشتہِ دار گئے تھے۔ چار سال وہاں رک رک کے جئے اور اب دو ہوٹلوں کے مالک ہیں ۔ سندھ کی ایک مٹیار کسی صاحب حیثیت کی میڈ کی حیثیت سے گئی تھی۔ اب ایک کروڑ پتی لارڈ کی بیگم ہے- اسکے لئے تازہ پان کراچی سے جاتے ہیں۔ کتھہ ہندوستان سے جاتا ہے، آم پاکستان سے جاتے ہیں ، پاپڑ اور وڑیاں بھارت سے جاتی ہیں ، محل میں رہتی ہے ، چار نوکر ہیں ۔ سفر کے لئے اپنا ہیلی کاپٹر ہے”۔
وہ ہنسنے لگا،بولا ” یہ پاکستانی قوم عجب مخلوق ہے۔ بیک وقت بالشتے بھی ہیں نو گزے بھی۔”