“یہ کتاب”
ٹرانسکرپشن : سحرش حنیف
یہ کتاب نہ فلسفہ بگھارتی ہے۔
نہ علمیت چھانٹتی ہے۔
نہ دانشوریاں پیش کرتی ہے۔
اگر آپ سنجیدہ اور مدلل مطالعہ کے خواہش مند ہیں تو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ یہ کتاب نہ پڑھیں۔ خوامخواہ وقت ضائع ہوگا۔
سچی بات یہ ہے کہ یہ کتاب، کتاب ہی نہیں میں نے بڑی کوشش کی ہے کہ یہ کتاب نہ بن جائے “بُکش” نہ ہو جائے۔ بوجھل نہ ہو جائے،اونچی باتیں نہ کرے جو سر کے اوپر سے گزر جائیں۔
یہ کتاب آپ سے باتیں کرے گی۔ ہلکی پھلکی باتیں۔ چھوٹے چھوٹے موضوعات پر باتیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو اس کی کچھ باتوں سے اتفاق نہ ہو۔ ایسا ہو تو ازراہِ کرم اس کی بات کو پلے نہ باندھیں۔ جھگڑا نہ کریں۔ صاحبو! دلیلوں سے کبھی کوئی قائل نہیں ہوا اختلافِ رائے تو ہوتا ہی ہے اسی سے تو زندگی رنگ بھری ہے۔
اس کتاب کا نام غلط ہے۔ غلط فہمی پیدا کرتا ہے۔ قاری کہے گا اگر تلاش ہے تو منزل بھی ہو گی۔ لیکن یہ ایسی تلاش ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ صرف تلاش ہی تلاش ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ کس چیز کی تلاش ہے۔ کبھی شک پڑتا ہے کہ مسلمان کی تلاش ہے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ شاید دورِ حاضرہ کی تلاش ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ تو سچ کی تلاش ہے۔ حتمی سچ کی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی سچائیوں کی۔ سوچوں کی سچائیاں، عمل کی سچائیاں، ایمان کی سچائیاں، برتاؤ کی سچائیاں، رسمی سچائیاں، پُرانی سچائیاں نئی سچائیاں۔
کسی نے بُوٹے سے پوچھا: بوٹے بوٹے! یہ بتا کہ تو اُگنے میں اتنی دیر کیوں لگا تا ہے؟
وہ بولا: اس لئے کہ زمین کی کشش مجھے اُگنے نہیں دیتی۔
ہای۔ئیں! ایسا ہے۔ بُری بات!
بُوٹا بولا: نہ زمین کو برا نہ کہو۔
کیوں نہ کہیں۔
اس لیے کہ اگر زمین مجھے اپنے سے نہ روکے تو میں کبھی نہ اُگ سکوں۔
وہ کیا بات ہوئی؟
رکاوٹ نہ ہو تو حرکت ممکن ہی نہیں۔ یہ قانون فطرت ہے۔ صاحبو! رکاوٹیں دراصل رحمتیں ہیں۔ رکاوٹیں حرکت پیدا کرتی ہیں۔ جن کے پہنچ جانے کا خطرہ ہو، ان کے راستے میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ اگر بڑے رکاوٹیں کھڑی نہ کریں تو چھوٹوں میں احتجاج پیدا نہ ہو۔ Revolt نہ ہو۔ حرکت پیدا نہ ہو۔
اور حرکت نہ ہو تو زندگی نہ ہو، کچھ بھی نہ ہو۔
یہ دنیا تصویر کی طرح فریم میں ٹنگی رہے۔
یہ زندگی کیا ہے؟
قیام اور حرکت کا اک کھیل ہی تو ہے۔
کبھی قیام آ جاتا ہے اور آتے ہی حرکت پر دفعہ 144 لگا دیتا ہے۔ خبردار! حرکت نہ کرنا، حرکت گناہ ہے۔ حرکت شیطانیت کا کھیل ہے۔
پھر حرکت کارلا آتا ہے۔ سب کچھ توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ کائنات کی پیدائش کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ہیں:
“پہلے قیام ہی قیام تھا۔ پھر ہم نے ایسی پھونک ماری کہ سب کچھ متحرک ہوگیا۔ آسمان الگ ہوگئے۔ زمینیں الگ ہوگئیں۔ سیارے بھنبھیریوں کی طرح گھومنے لگے۔ سورج بھڑ بھڑ جلنے لگے۔ چاند زمینوں کے گرد چکر کھانے لگے۔ مادے کو ایسا دھچکا لگا کہ آج تک اس پھونک کا زور ختم نہیں ہوا۔ آج بھی کائنات بلبلے کی طرح پھیلے جارہی ہے۔ پھیلے جا رہی ہے۔ ہر چیز حرکت میں ہے۔ مسلسل حرکت۔
یہ کتاب چھوٹوں کے لئے ہے۔
عرصہ دراز سے ہمارے ہاں بڑوں نے اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو پر براجمان ہوئے بیٹھیں ہیں۔ مناپلی بنا رکھی ہے۔ اخلاقیات پر، مذہب پر، سوجھ بوجھ پر۔
بڑے کہتے ہیں، ہم جانتے ہیں۔ لہٰذا ہر بار بات ہم سے پوچھ کر کی جائے گا۔ وہ چھوٹوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ چھوٹے بالغ ہوجائیں، پھر بھی فرد کی حیثیت دیتے ۔ بڑوں کی نگاہوں میں وہ چھوٹے ہی رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے چھوٹوں میں منفی رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ یوں ہمارا مستقبل داغدار ہو جاتا ہے۔
ہاں تو یہ کتاب چھوٹوں کیلیے ہے، لیکن درپردہ بڑوں کو متوجہ کرتی ہے۔ پنجابی میں ایک مثل ہے۔ “دھیوڑیئے گل سُن، نیوڑیے کن کر۔” مطلب یہ کہ ساس بظاہر اپنی بیٹی کو جھاڑ جھپٹ کرتی ہے۔ یہ محض دکھاوا ہے۔ دراصل وہ بہو کو سرزنش کر رہی ہوتی ہے۔ یہ کتاب بھی کہتی ہے، چھوٹے گل سن، بڑے کن کر۔
وقت یہ ہے کہ بڑے کن نہیں کرتے، سنتے نہیں۔ انھیں بولنے سے فرصت ہو تو سنیں۔ صاحبو! بڑوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں۔ جو سمجھتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے، اسے سننے کی کیا ضرورت ہے اور جو سنے ہی نہیں اسے کون سمجھاۓ۔
یہ کتاب جگہ جگہ اسلام کی باتیں کرے گی۔ اس سے یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ مصنف اسلام کو سمجھتا ہے۔ بے شک اس نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے۔ چار ایک سال ہوگئے، علماء کی کتابیں پڑھی ہیں۔ دینی رہنماؤں کی تفسیر پڑھی ہیں۔ لیکن بات سمجھ میں نہیں آئی۔ لگتا ہے جیسے اسلام بھی اللہ کے جملہ بھیدوں میں سے ایک بھید ہے۔ بہرحال اس کا ایک فائدہ ہوا کہ جو لوگ اسلام نہیں سمجھتے لیکن سمجھتے ہیں کہ سمجھنے میں ان کی پہچان ہو گئی ہے۔
یہ کتاب بھی سمجھ میں آگئی ہے کہ مروجہ اسلام کے دو فائدے ہیں۔ ایک تو اس سے ثواب کمایا جا سکتا ہے اور دوسرے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ ثواب کمانا بھی تو استعمال کرنے کی ایک صورت ہے۔
بہرحال لوگ اسے بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ حکمران اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سیاستیے اپنی سیاست چمکانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے لئے علمائے دین پیش ہیں۔ انہوں نے عالم کا مرتبہ حاصل کرنے کے لیے دین کو جو سراسر عمل ہے، علم میں بدل دیا ہ۔ے بڑے بڑے پگڑ باندھ کر چوغہ پہن کر آنکھوں کو کاجل اور داڑھی کو خضاب سے رنگ کر عالم دین بن بیٹھے ہیں اور اب اس بات کے خواہاں ہیں کہ اقتدار پر قابض ہو جائیں۔
ہم نے اس کتاب کا دیباچہ چھوٹوں سے لکھوایا ہے۔ یہ عمر میں چھوٹے ہیں ویسے بڑے Talented ہیں۔ ان میں ایک شاعرہ ہے، بڑی شاعرہ جو پبھاں بھار کھڑی خود کو اور گرد و پیش کو دیکھ رہی ہے۔ “پبھاں بھار” ہی اس کتاب کی روح ہے۔ چونکہ یہ کتاب ایلس ان ونڈر لینڈ ہے۔ ایک دیباچہ نگار افسانہ نویس ہے۔ ایک ادب بولتی ہے، لکھتی نہیں۔ ایک سوچوں بھری پٹاری ہے، مگر اظہار کے حق میں نہیں۔ بہرحال جیسی کیسی بھی ہے، یہ کتاب حاضر خدمت ہے۔
ممتاز مفتی
ستمبر 1995ء