کتاب : تلاش
باب 2 : عالمِ دین
ٹرانسکرپشن : رضوانہ راۓ
صوفیاۓ کرام
اس کے برعکس صوفیائے کرام نے مساوات کو اپنایا۔ وہ جانتے تھے کہ جن لوگوں پر اثر ڈالنا ہے، ہمیں ویسا بننا پڑے گا، اس حد تک کہ وہ سمجھیں یہ شخص ہم میں سے ہے۔
صوفیا ۓ کرام سینکڑوں میل دور وسط ایشیا سے ہندوستان میں آتے تھے۔ یہاں پہنچ کر سچے دل سے اسے اپنا وطن سمجھتے، پورے طور پر ہمیں اپنا لیتے، ہماری بولی سیکھتے، ہمارا پہناوا پہنتے، ہمارا رہن سہن اپناتے، ہماری رسومات و رواج کو اپناتے، پھر وہ ہم سے بات کرتے۔ وہ اس بھید سے واقف تھے کہ جب تک وہ ہم جیسے نہیں بنیں گے انکی بات ہم تک نہیں پہنچے گی۔ جب مکمل طور پر ہم میں رچ بس جاتے تو وہ ہماری زبان میں ہماری عوامی کہانیاں لکھتے۔ ان تصانیف میں وہ ہمارے لئے پیغام رکھ دیتے تھے۔
انکی تصانیف اتنی اپنائیت لئے ہوتیں کہ عوام انہیں حفظ کر لیتے پھر تقریبات میں ، محفلوں میں ، داروں میں لوگ انہیں والہانہ پڑھتے اور سننے والے سر دھنتے۔
صوفیاۓ کرام نے کببی اسلام کی تبلیغ نہیں کی تھی۔ انہوں نے کبھی بحث مباحثے نہیں کئے۔ انہوں نے کبھی تقریریں نہیں کیں تھیں۔ وہ اسلام کا ڈنکا نہیں بجاتے تھے۔ صرف اسلام کے لئے جیتے تھے۔ انکے پاس دو ہتھیار تھے، اخلاق اور حسن کردار۔ ان دونوں ہتھیاروں میں مساوات کی دھار تھی جو لوہے کی دھار سے زیادہ کاٹ کرتی ہے۔
داتا صاحب نے کبھی کسی سائل سے یہ نہیں پو چھا تھا کہ میاں تو ہندو ہے یا مسلمان۔ وہ صرف دینا جانتے تھے اور وہ واحد قادر مطلق، جو دینے پر قادر ہے، اپنے چاکر کی لاج رکھتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چند سالوں میں آدھا لاہور مسلمان ہو گیا۔ متعصب لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔ وہ سچ کہتے ہیں لیکن یہ تلوار فولاد کی نہیں ،اسلامی کردار کی تھی۔ صاحبو ! جان لو کہ مساوات سے زیادہ خطرناک ہتھیار کوئی نہیں ہے۔