کتاب : تلاش
باب 6 : یہ خدا ، وہ خدا
ٹرانسکرپشن : ایمان گل
انسان کا شرف
جو کاٸنات کو مانتے تھے، وہ کہتے تھے، اس کی پیداٸش تو ایک حادثہ ہے۔ آپ ہی آپ وجود میں آ گٸ ہے۔ اس کا کوٸی مقصد ہے نا منزل۔ جو کاٸنات کے وجود کو ہی بے معنی سمجھتے ہوں، ان کے نزدیک انسان کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔
قرآن نے لوگوں کو بتایا کہ کاٸنات ایک واحد خدا نے تخلیق کی ہے۔ اس کا ایک مقصد ہے، منزل ہے۔ یہ زندگی خواب نہیں، حقیقت ہے۔
بہت بڑی، بہت اہم حقیقت۔
یہ وہ بوٹا ہے جس پر دوزخ اور بہشت کا پھل لگے گا۔ انسان کو اللہ نے بڑا شرف عطا کر رکھا ہے۔
وہ فانی نہیں کیونکہ اللہ نے اس میں اپنی روح پھونکی ہے۔
یہ لاڈلا چاند سے کھیلے گا۔ ستاروں کو نوچے گا۔ اللہ نے اس لاڈلے کو بڑی قوتوں سے نوازا ہے۔
صاحبو ! اب تو ساٸنس دان بھی مان گۓ کہ انسان میں جتنی قوتیں پنہاں ہیں، ہم صرف اس کا دسواں حصہ استعمال کر رہے ہیں۔ نو حصے خوابیدہ پڑے ہوۓ ہیں جو منتظر ہیں کہ انھیں تصرف میں لایا جاۓ۔
سیانے کہتے ہیں دور کے ڈھول سہانے۔ ساٸنس دان نے سب سے پہلے دور کےڈھولوں کی طرف توجہ کی۔ چاند، ستارے، سورج، کہکشاں۔ انھوں نے اس بھید کو نہ سمجھا کہ سب سے بڑا اسرار تو خود انسان ہے۔
اس لیے چراغ تلے اندھیرا ہی رہا۔پھر شاعروں نے شور مچایا
“تیری بکل دے وچ چور”
لیکن بکل کی طرف کسی نے توجہ نہ کی۔
اب ساٸنسی تحقیق کے سامنے ایک دیوار آ کھڑی ہے۔ آگے جانے کا کوٸی راستہ نہیں۔ رخ بدلنا لازم ہے۔ اب وہ انسان کی جانب توجہ کر رہے ہیں۔ انھیں احساس ہو گیا ہے کہ ساری کاٸنات میں انسان ہی سب سے بڑا معمہ ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنی روح پھونک رکھی ہے۔ جسے اللہ نے اپنا ناٸب بنایا ہے۔ جس کی ساری کاٸنات خادم ہے۔ اللہ کا انوکھا لاڈلا۔