کاشف جانبار کی کتاب اسیررواں پر تبصرہ
سہیل تاج
کاشف جانباز صاحب ممتاز مفتی گروپ کے فعال ممبر ہیں۔ ایک روز ان کی کتاب کا سرورق گروپ میں دیکھا تو ان سے فرمائش کی کہ ایک کتاب ارسال کی جائے جو کہ جلد ہی بذریعہ ڈاک آفس میں موصول ہوئی۔ اتفاق سے میٹنگ کے بعد کچھ صحافی دوست بیٹھے تھے جو کہ کتابوں سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے کہ کتاب ان کے سامنے رکھی تو وہ اس کی ورق گردانی کے بعد اپنی رائے ضرور دیں گے، میں نے کتاب میز پر رکھ دی۔ ان میں سے ہر ایک نے کتاب اٹھائی، قیمت ، عرض مصنف اور کتاب کے میعار کا جائزہ لینے کے بعد فہرست سے اپنی دلچسپی کے مطابق کچھ موضوعات کو پڑھنا شروع کیا۔
ایک کے بعد ایک باب کو دیکھنے کے بعد ان کا تبصرہ کچھ یوں تھا کہ مصنف کی کاوش بہت اچھی ہے۔ انہوں نے بظاہر عام سے نظر آنے والے موضوعات پر ایسا تبصرہ کیا ہے کہ پڑھ کر روزمرہ زندگی میں ہونے والے واقعات ایک نئے زاویے سے تخیل میں آنے لگتے ہیں۔ یقیناًخیال کسی الہام سے کم سے نہیں ہوتے اور کاشف جانباز صاحب نے قدرت اور قارئین کے مابین ایک چینل کا کام کیا ہے اور بکھرے خیالات کو نئے اندازسے قارئین کی نذر کیا ہے۔
کتاب پڑھنے والوں کی دوسری رائے یہ تھی کہ مشکل الفاظ کا استعمال زیادہ کیا گیا ہے۔ کتاب پڑھنے کے دوران میرا مشاہدہ بھی یہی رہا کہ مشکل الفاظ کا استعمال قدرے زیادہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر؛
۱۔ اگر اس کی مقدار میں کمی واقع ہو جائے تو انسانی تشخص انہدام کی زد میں آکر نابدوگی کی سمت قدم بردار ہونے لگتا ہے۔
۲۔ جونہی اس جاء پر اس کے پیر پڑتے ہیں تو یہ زندگی یوں گرتی ہے کہ پھر تازمام حشر نہیں اٹھتی۔
ممتاز مفتی کہا کرتے تھے کہ اگر عالم اپنی بات جاہل تک نہ پہنچا سکے تو اس میں قصور جاہل کا نہیں بلکہ عالم کا ہے۔ بالخصوس اگر بات کے اسلوب کی جائے تو اس کا قاری ادب پرور نہیں چنانچہ اس نوع کے الفاظ کا چناؤ مناسب نہیں۔
اس کتاب خواص کے بارے میں بات کریں تو وہ یہ ہے کہ مصنف نے سماجی، معاشرتی اور ذاتی مسائل پر تبصرہ اس انداز سے کیا ہے کہ نہ صرف مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے بلکہ افراد کے رویے اور بطور سماج افکار کی عکاسی بھی ہوتی۔
اسی ضمن میں مصنف کے مضامین اولاد اور قربانی قابل ذکر ہیں۔ اولاد کی خواہش ہر خاص و عام کو ہوتی ہے مگر با اذن اللہ، اولاد نہ ہونا یہ اس امر میں تاخیر ہو جانے پر سماج کیا سوچتا ہے، کیسے انگشت درازی کی جاتی ہے اور کیسے تضحیک ہوتی ہے یہ کسی سے چھپی بات نہیں۔۔ اس موضوع کو زندگی کی تجربے سے اٹھا کر کتاب کا حصہ بنا دینا اور سماج کے تلخ رویے کی نشان دہی کرنا ، بلاشبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مصنف کا ہاتھ سماج کی نبض پر ہے۔
اس کے بعد قربانی جیسے مضمون میں یہ بیان کیا کہ کیسے مصنف کے دوست نے قربانی سے پہلے نئے فریج کی خواہش کا اظہار کیا کہ گویا قربانی ، قربانی نہ رہی بلکہ گوشت کو ذخیرہ کرنے کا ذریعہ بن گئی۔اس کے علاوہ ، انٹرنیٹ پر عوام کے رویے، خود شناسی، روایتی گدی نشینی جیسے موضوعات کو بھی مصنف نے قلمبند کیا ہے۔
کاشف صاحب نے اپنے خیال کو الفاظ کا روپ دیا اور پھر کتاب کی صورت اسے قارئین تک پہنچایا، جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کاشف کی یہ کوشش کا یہاں اختتام نہیں ہوا بلکہ وہ مزید کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ہم ان کی کامیابی اور کامرانی کے لیے دعا گو ہیں۔