لکھ یار

اکیلا پن

 تحریر : محمد عاصم لطیف

صاحبو! میں نے اپنے اک بہت ہی قریبی اور نفیس دوست سے پوچھا کہ اکیلا پن کیا ہوتا ہے؟ تو جناب کہنے لگے “اکیلا پن کا لفظ ان کے لئے استعمال کیا جاتا lonelinessہے جن کا کوئی خاندان یا خاندانی تعلق نہیں ہوتا اور ہمارا اس سے کوئی لین دین نہیں۔ اکیلا پن مایوسی کی علامت ہے اور تم بھی دور رہو”۔ جناب نے بالکل بجا کہا ۔ پر میں یہ سننا نہیں چاہتا تھا تو کہا بجا فرمایا آپ نے”۔ اسی ہی لمحے میرے اپنے اندر اکیلے پن کی وہ نسبت ٹھاٹھیں مار رہی تھی جس میں وہ اپنی کھدرے پن کو کانٹے دار سطح میں تبدیل کرنے کو تھی تہو کچھ وضاحت نہیں دے پایا۔ جس اکیلے پن سے مجھے واقفیت تھی وہ تو ہمیشہ پرسکون سانس لینے کو اور قدم بہ قدم سہارا بننے کو ترجیح دیتا تھا۔ کہا کرتا تھا کہ اپنے اندر کو ٹھر ٹھر کے خالی کر اور ایسا خالی کر کہ جگہ کا خالی پن کسی یکتائی کا ثبوت دے۔ پھر ایسے رنگ ڈھنگ سی صفائی کی جائے کہ پتہ نہیں کس کو ٹھرانے کا مستداق ہے۔ پھر ٹھرانا بھی کیسا کہ اپنے بھرپور وجود کی اپنائیت سے برقرار رہ سکے۔ کہا کرتا کہ جسمانی اعضاء پر تمہارا کوئ حق نہیں۔ انہیں قدرتی رنگ میں اپنا کام کرنے دو۔ یہ قدرتی رنگ بھی ٹھر ٹھر کے دکھاءے گئےاور یہ واقفیت کبھی ناگوار نہ گزری۔ یہ کونسی اکیلے پن کی عادت گلے آ لگی تھی جس نے بے سانس کر دیا اس کا کانٹا کیا چبھا کہ محسوس ہونے لگا کہ ساری دنیا کا غلیظ ترین کوڑا کرکٹ میرے اندر لا اکھٹا کیا اور پھر ایسی تھپکی دے کہ سلایا کہ رات کو اٹھ اٹھ کر خون کی الٹیاں کرنی پڑیں۔ اس حالت نے تو اندر کے اطمینان سمندر کو تتر بتر کر دیا۔ اس اکیلے پن سے تو کوئی واقفیت نہ تھی اور شناسائی ہوئی بھی تو ڈرے ہوئے انسان کا اور ڈر بڑھ گیا۔ انسان اس دنیا میں اکیلا ہی آیا اکیلے نے ہی واپس جانا ہے تو پھر انسان کس ڈر کو اپنے آج کی رکاوٹ بنائے ہوئے ہے۔ اس درمیانی دورانیہ میں ایک اکیلا پن قدرتی طور پر مسلط ہے۔ جس کی چھاؤں کی تاثیر بہت ٹھنڈی ہے، جو انسان کو سنبھالادئیے ہوئے ہے۔ یہ اکیلا پن کہیں نہ کہیں سے انسان کو ٹٹولنا ہے کہ خود کو بنانے والے کی سوچ میں لگ جائے۔ چاہے وہ خدا، مرد یا عورت ہو۔ خلا مہیا کرتا ہے کہ خود کو بھی رائج کر سکے۔ اور دوسرا اکیلا پن یہ دنیا مسلط کر دیتی ہے۔ اپنانا فرض ہوتا ہے اور پھر اس کو سنبھالا دینا ہوتا ہے ۔ یہ چلے تو ساتھ چلنا اور ٹھرے تو ساتھ ٹھرنا پڑتا ہے ۔ یہ خود نا چیزہو کہ بھی دو وجود کا وزن رکھے ہوئے ہے۔اصل میں یہ بہروپیا ہے جو بہت سی اشکال ، روپ اور رویہ تھامے ہوئے ہے۔ زندگیاں جھپٹنے کے سبھی راستوں سے واقف ہے۔ یہ تو کھدرا پن ہے رگڑ کے نشان چھوڑ جاتا ہے یا وہ کانٹے دار سطح ہے جو اپنا زہر انسان کے اندر اتارنے کو ہے۔ شاید دونوں حالتیں حق ہیں تو مسلط ہیں۔فرار ممکن نہیں ہے تو کوئی ایسی راہ تو ہو گی جہاں پر یہ کھردرا پن اس کانٹے دار سطح کو اپنے اندر سمو لے اور ہمارے کندھوں سے بوجھ ہلکا ہو جائے۔ انسان کے مالک نے انسان کا ہر حق بھرپور طریقے سے ادا کیا ہے۔ انسان کے کندھوں پہ کسی رویہ کا بوجھ نہیں رکھا۔ رویہ بھی طور سے بنائے کہ کہ ایک دوسرے کا اثر زائل کر دیتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری بس مستقل مزاجی ہے ۔ ہر مزاج کے مستقل مزاجی بھرپور اطمینان کا باعث تب ہی ہو پائے گا جب ان دونوں حالتوں کے اکیلے پن کے ساتھ کندھے سع کندھا ملائے ہوں گے۔ کسی ایک حالت سے جوڑ ٹوٹا ادھر وہ آپ کی زندگی جھپٹنے میں بالکل دیر نہیں لگائے گا۔

Related Articles

One Comment

  1. Bhai mere khayal ma akele pan ka aik hi ilaj ha aur wo ha shadi.Ap jaldi sa shadi kar lijea In Sha Allah nafah hoga.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button