لکھ یار

گانوں کی طرز پر نعت خوانی جرم ہے

حمزہ رحٰمن ملک

دل اور دماغ میں پھنسی ہوئی بات کر ہی دینی چاہیے. کئی دفعہ یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ کہیں گستاخی یا گناہ کا ارتکاب نا کر بیٹھوں. مگر آج فیصلہ کیا ہےmadina کہ دل کی بات کر ہی دوں. میں جانوں، رسول الله صلی الله علیہ وا الہ وسلم جانیں اور خدا جانے. میں اپنا مقدمہ بارگاہ الہیٰ میں خود لڑ لوں گا.

نعتِ رسول صلی الله علیہ وا الہ وسلم بلا شبہ لکھنا بھی سعادت، پڑھنا بھی اور سننا بھی سعادت ہے. مگر آجکل یہ تینوں departments یعنی نعت لکھنا، پڑھنا اور سننا عجیب بلکہ افسوس ںاک صورتحال کا شکار ہیں. سستی شہرت حاصل کرنے کے لیۓ وہ لوگ نعتیہ کلام لکھتے ہیں جنہیں الفاظ و معنی کا سرے سے معلوم ہی نہیں، نعت خوان آداب سے نا آشنا ہیں اور  گمشدہ گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھتے ہیں اور  سننے والے عاشقان بھی  عجیب انداز میں داد دیتے ہیں. تینوں میں سب سے زیادہ خراب کا م نعت خوان حضرات نے کیا ہے. کئی تو ایسے ہیں کہ شاعروں سے مخصوص گانوں پر کلام لکھواتے ہیں.  صرف ایک مثال شہباز قمر آفریدی کی دیکھ لیں.بہت مشہور ہیں TV پر اکثر جلوہ افروز ہوتے ہیں. اس جوان نے انڈین اور پاکستانی گانوں اور غزلوں پر اچھی خاصی ریسرچ کر کے ان کی طرز پر نعتیں پڑھنے کو عادت بنا لیا ہے. ذرا غور کیجیے گا.

“نوری مکھڑا تے زلفاں نے کالیاں ” کی طرز نور جہاں کے گانے ” تو میرا یار میرا پیار میرے ہاںڑ یاں” پر ہے.”میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے تیری راہ میں اکھیاں” کی طرز نصرت فتح کی غزل “پھروں ڈھونڈتا مے کدہ توبہ توبہ” پر ہے. “ایک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے” کی طرز نصرت فتح کی غزل “کیا تھا جو گھڑی بھر کو تم لوٹ کے آجاتے” پر ہے. میں نے موصوف سے کوئی آدھ گھنٹہ اسی موضوع پر بات کی. پہلے پکڑائی نہ دی، پھر ثبوت مانگنے لگے اور آخر میں ساری ذمہ داری audience پر دال دی کہ لوگ جس طرح کی فرمائش کرتے ہیں ہم اسی طرح سے نعت پڑھتے ہیں. تین ماہ بعد نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ موصوف نے ایک اور شہکار market میں متعارف کرا دیا. ” آقا میریا ں اکھیاں مدینے وچ رہ گیاں”  اس کی طرز  عنایت حسین بھٹی کے گاۓ ہوۓ گانے “بابل میریا ں گڈیاں تیرے گھر رہ گیاں” پر ہے  آجکل یہی گا نا انڈین لڑکی ھرشدیپ نے بھی گا یا ہوا ہے.

اسی طرح کئ ایک لوگ ہیں جنہوں نے گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھی ہیں. یہ گھٹیا حرکت صرف نعتیہ کلام لکھنے والوں تک ہی  تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مرثیہ خوانوں اور نوحہ خوانوں نے بھی یہی طریقہ اپنا رکھا ہے. نا صرف گانوں کی طرز اپنائی جاتی ہے بلکہ موسیقی اور چھنکار کا استعمال بھی ہوتا ہے. کیا یہ عجیب معاملہ نہیں ہے کے مدح سرائی میں دفلی کا سہارا لیا جاۓ؟ واقعہ کربلا کو مرثیہ یا نوحے کی شکل میں  بیان کرنے ک لیے موسیقی استعمال کی جاۓ؟ یا نعت کے لیۓ گانوں کی طرز اپنائی جاۓ؟ اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے. اسی محفل میں موجود مفسرِقران بھی نہیں بولیں گے اور نہ ہی کوئی ذاکر اس پر اعتراض کرے گا.

کیا ان لوگوں کو منصبِ رسالت مآب کی یہ سمجھ آئی ہے کے پوری کائنات کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے حضور گلدستہ عقیدت گانوں کی طرز پر پیش کیا  جاۓ؟  یا خانوادہ رسول علیہ سلام کے ساتھ غم کا اظھار موسیقی کی چھنکار میں کیا جاۓ؟ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے اور اس کے تدارک کے لئے کیا کرنا چاہیے.

   حضرت حّسان بن ثابت رضی الله عنہ بارگاہ رسالت مآب میں پہلے با قاعدہ نعت خوان ہیں. ان سے پہلے بھی کچھ جگہوں پر نعتیہ کلام ملتا ہےلیکن آپ پہلے با قاعدہ نعت خوان ہیں. جب کفار آپ صلی الله علیہ وا الہ وسلم کی شان میں تضحیک آمیز اشعار لکھا کرتے تو حضرت حّسان بن ثابت رضی الله عنہ  آقا صلی الله علیہ وا الہ وسلم کی شان میں قصیدے لکھتے اور کافروں کا منہ بند کر دیتے. آقا صلی الله علیہ وا الہ وسلم حضرت حسان پر بہت خوش ہوتے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت حسن کا لکھا ہوا کلام مستند بھی ہوتا اور با وزن بھی. دور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان میں اب بھی ایسے نعت خوان لوگ موجود ہیں جنہوں نے نعتیہ کلام کے انتخاب ، اسلوب اور ادائیگی پر پہلے  بہت کام کیا اور اس کے بعد نعت کو پڑھا. سید منظورالکونین، اُم حبیبہ، قاری وحید ظفر، قاری صدیق اسماعیل، اختر بزمی وغیرہ  ایسے لوگ ہیں جنکی پڑھی ہوئی نعتیں آج بھی بڑی قدر و منزلت رکھتی. مگر افسوس صد افسوس کہ سستی شہرت کے پجاریوں نے محافلِ نعت کا ماحول بھی تبد یل کر دیا اور اسے ذریعہ معاش بنا لیا. 

کیا اس کے ذمہ دار عوام ہیں؟ زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کہ نعت یا مرثیہ کسی خاص گانے کی طرز پر ہے. گا نا گانے کے گرُ چونکہ بڑی محنت کے بعد آتے ہیں اور بڑی ریاضت کے بعد اس کی لے بنتی ہے لہذا اس کا اثر سامعین پر کافی گہرا ہوتا ہے اس لیے جس شخص نے گانا نہیں سنا تھا بلکہ اس کی طرز پر براہ راست نعت سنی وہ تو واہ واہ کئےبغیر نہیں رہ سکے گا اور نعت خوان کو خوب داد دے گا. اس حرکت کے خالق ہی اس کے اصل ذمہ دار ہیں مگر انہیں کون روکے گا؟ اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ فرض ہے کے وہ اس پر توجہ دیں. نا تو معاملہ فرقہ واریت کا ہے اور نہ ہی اسلامیات کی کتاب کا بلکہ معاملہ ادبِ منصب کا ہے. تحریر اور تقریر کی آزادی اپنی جگہ لیکن ہر شخص نعت خوان نہیں ہو سکتا اور نا ہی صرف نعت خوانی سے عشقِ رسول ملتا ہے. نعت لکھنا بھی عشقِ رسول ہے پڑھنا اور سننا بھی عشقِ رسول صلی الله علیہ وا الہ وسلم ہے.  اسلامی نظریاتی کونسل کو چاہئے کہ حمد، نعت، نوحے، اور دیگر عارفانہ کلام کے لئے الگ شعبہ بناۓ تا کہ مندرجہ بالا  لا یعنی اور نچلے درجے کی حرکتوں پر قابو پایا جاسکے.

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button