لکھ یار

بیساکھی، ماہم ملک

۔۔۔
مسٹر اسد خان!!!!
“یہ معاشرہ زہنی طور پر معذور انسان کو تو قبول کرلیتا ھے لیکن جسمانی طور طور پر معذور انسان کو بلکل قبول نہیں کرتا ”
اور میں یہ نہیں بھول سکتی کہ میں ایک معذور لڑکی ہوں ،جسمانی طور پر معذور ،لوگ مجھ پہ صرف ترس کھا سکتے ہیں ۔۔۔۔۔محبت نہیں کرسکتے ۔۔۔ہم ادھورے لوگ ادھورے ہی راہ جاتے ہیں۔۔۔معذوری زندگی بھرکا روگ ھے روگ۔۔۔
اور روگ جاتے کب ہیں یہ تو خوشیوں کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں ۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے ہما کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا لیکن اسے اسد کی امی کی گزشتہ رات کال پہ کی گئی باتیں نہیں بھولی تھی ۔جس کے لہجے کی تلخی اس کی روح تک کو چھلنی کر گئی تھی ۔۔۔
لڑکی یاد رکھنا میں مر جاؤں گی لیکن ایک لنگڑی لڑکی کو کبھی بہو بنا کر نہیں لے جاؤ گی ،میرے بیٹا کا پیچھا چھوڑ دو ،پتہ نہیں کتنوں پہ ڈورے ڈال رکھے ہیں تم نے بد کار۔۔۔ہما نے
آنکھوں سے پار آتے آنسوں کو جلدی سے صاف کیا ۔۔۔
اسد نظریں زمین میں گڑھے چپ چاپ ایک مجرم کی طرح ہما کی تلخی سے بھر پور سچی باتوں کو سنتا رہا۔۔۔
وہ گزشتہ رات اپنے والدین کی گئی باتوں کوزہن میں دوہرانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔
اسد اگر تم اُس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو تو شوق سے کرو لیکن یہ بات یاد رکھنا تم اکیلے ہی اس کو بیاہنے جاؤ گے اور وہی رہو گے جہاں وہ لڑکی رہتی ھے ہم ساری زندگی تمھاری شکل نہیں دیکھیں گے ۔ہم کہیں گے اللہ نے ہمیں کوئی اولاد ہی نہیں دی تم ہمارے لیے اور ہم تمھارے لیے مر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔خیالات کی دنیا سے واپس آتے ہوئے ہما کی کہی گئی باتوں میں اسد صرف اتنا ہی کہہ پایا کہ،
ہما میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔۔۔
تمھاری اس محبت نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا اسد پہلے مجھے لنگڑی کہتے تھے اب مجھے پہ بد کار کا دھبہ بھی لگ جائے گا —
اور تمہیں پتہ ھے جب بات کردار پہ آجائے تو عورت چپ نہیں رہتی بلکے سب کوچپ کروا دیتی ھے ۔۔۔۔کوئی بھی عورت اپنے کردار کی طرف اٹھاتی انگلی نہیں کر سکتی۔۔۔
چلے جاؤ یہاں سے آئندہ کبھی مت آنا۔۔
کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی تھی
اسد نے اپنی محبت کے لاشے کو خود ہی اپنے کندھوں پہ اٹھایا اور بوجھل قدموں سے باہر نکل آیا ہما کو زندگی بھر ماتم کرنے کے لیے کمرہ میں ہی چھوڑ آیا۔۔۔۔۔
ہما زور زور سے رونا چاہتی تھی۔۔۔۔ چلانا چاہتی تھی ۔۔۔۔
لیکن ایسا نہ کرسکی۔۔۔
کمرے میں داخل فوزیہ کو دیکھتے ہما بولی
اماں میں نے اسد کی محبت کا بھرم رکھ لیا اماں۔۔۔۔
اس سے پہلے مجھے وہ اپنی مجبوریوں کا رونا روتا میں نے خود انکار کر دیا اسے ۔۔۔۔اماں میں نے ٹھیک کیا نہ ۔۔۔
اسے اپنے پاس پڑی بیساکھی سے نفرت ہونے لگی وہ بیساکھی جس کے سہارے ہما چلتی تھی بیساکھی کو دیوار کے ساتھ دے مارا اور فوزیہ کے گلے لگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی ۔۔۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button