لکھ یار

بہاؤ کا کردار پاروشنی

انتخاب : احمد بلال

میرا پسندیدہ کردار :
ہندوستان کے معروف ادبی جریدے ” ذہن جدید ” کے تحت ایک سروے ہوا جس میں اردو کے ممتاز ناقدین نے حصہ لیا۔۔ اس سروے میں ” بہاؤ ” کو بیسیویں صدی میں لکھے جانے والے اردو کے دس بہترین ناولوں میں شمار کیا گیا۔۔۔ ” بہاو ” جو اپنے اسلوب اور ہییت کے لحاظ سے ایک منفرد ناول ہے۔۔۔ بی بی سی کے مطابق ” بہاو ایک کلاسک ناول ہے ” اور مستنصر حسین تارڑ کے نمائیندہ ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔۔
” بہاو ” دراصل ان اجڑتی ہوئی بستی کی کہانی ہے۔۔ جو دریائے سندھو اور گھاگھرا کے کنارے آباد تھیں۔۔ یہ ایک ایسی بستی کا قصہ ہے جہاں دریا زندگی کی علامت تھا، جس پر وہاں بسنے والوں کی زندگی کا دارومدار تھا، اس دریا کی روانی انکی زندگی کی امان تھی لیکن دریا کا بہاؤ جب کم ہونا شروع ہوا تو زندگی کا سفر ساکن ہونے لگا۔۔۔ دریا کے سوکھنے کے عمل نے ان لوگوں پر کیا اثر کیا ؟ ان لوگوں کے کیا احساسات تھے ؟ ان کی زندگیوں میں دریا کے سوکھنے پر کیا بدلاو آیا ؟ یہ تارڑ سر نے کمال انداز میں بیان کیا ہے۔۔۔
اس ناول میں سب کردار اپنی جگہ بہت مضبوط ہے، لیکن میں صرف ایک کردار کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش کرو گا جو اس ناول میں میرا پسندیدہ کردار ہے
” پاروشنی ” جس کے بارے میں تارڑ سر کہتے ہیں کہ :
” پاروشنی ایک ایسی لڑکی تھی، جو بہت خوب صورت تھی۔۔ میرے اور اُس کے درمیان ایک رشتہ تھا، ایک دوسرے کو سمجھنے کا رشتہ، یا محبت کا رشتہ کہہ لیں۔۔۔ پاروشنی اسی کا سراپا ہے۔۔ چال ڈھال، جسمانی خطوط میں نے وہاں سے لیے، مگر میں اسے پانچ ہزار سال پیچھے لے گیا۔۔۔ “
پاروشنی کا سراپا ملاحظہ کیجئے :
” پاروشنی اپنی نسل کا خاص قد بت لیے ہوئے تھی۔۔۔ ہلکا سیاہی مائل رنگ، گھنگریالے اور بھورے بال جو ایک ستھرے گھونسلے کی طرح سر پر رکھے ھوئے تھے۔۔۔۔ بھنویں اوپر کو اٹھی ہوئیں، ناک چوڑی مگر اونچی، جبڑا ذرا آگے کو نکلتا ہوا جیسے بھوکے جنور کا ہوتا ھے۔۔۔ قد بت ایسا کہ کنک کی فصل میں چلتے ہوئے پہلی نظر پر دکھائی نہ دے اور سروٹوں میں گم ہو جائے۔۔۔۔ ہونٹ موٹے اور بھرے بھرے۔۔۔ اور کولہے پھنیر سانپ کے پھیلے ھوئے پھن کی طرح۔۔۔ “
پاروشنی، بہاؤ کا مرکزی کردار ہے، یہ کردار ہی ہمیں اس تہذیب سے روشناس کرواتی ہے جو مٹ چکی ہے، پاروشنی ہی ہمیں اس عہد کے عورت کے داخلی اور خارجی عناصر سے بھی متعارف کرواتی ہے، جس کے اندر جنگ جاری رہتی ہے کہ اس کا وجود کیا چاہتا ہے۔۔ وہ اپنی دھرتی کی محبت میں تنہا اس خشک دریا کے کنارے کو آباد رکھتی ہے، جیسے اس کے گاوں کے لوگ اور ساتھی چھوڑ جاتے ہیں۔۔ پاروشنی بستی کی ایسی عورت ہے جس کے زمہ ہر گھر پانی پہنچانا ہے۔۔۔ اس کا کوئی رشتہ کوئی تعلق دار نہیں ہے گاوں کے لوگ ہی اس کے سنگی ساتھی ہیں۔۔۔ اس کا کردار جہاں الجھن اور کشمکش کا شکار ہے وہیں، محبت کے بارے میں بھی التفات کا شکار ہے۔۔۔ کبھی اس کا دل ورچن کا تمنائی ہوتا ہے کبھی سمرو کو اس کا دل تلاش کرتا ہے، جب ورچن دور دیس کی سیر سے واپس لوٹتا ہے دونوں کی شادی کی تیاری ہوتی ہے اور جب وہ ورچن کی سنگت میں ہوتی ہے تو بے چین ہوکر سمر کے پاس چلی جاتی ہے۔۔۔ اسی ذہنی اور نفسیاتی الجھن کا شکار ہوکر سوچتی ہے دونوں ہی اس کے لیے ہیں۔۔۔ اُسے دونوں کی دوری اداس کرتی ہے اسی طرح دونوں کے قرب کے سہارے زندگی میں آگے چلتی جاتی ہے اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ اس کے اندر نمو پانے والی ہستی کس کی ہے۔۔ اس کی پیداٸش اس دریا کنارے لے جاتی لیکن جب اس وجود کی خاموشی اسکے مردہ ہونے کی گواہی دیتی ہے تو پاروشنی کی فلسفیانہ سوچ پھر اسی دھارے پر بہنے لگتی ہے کہ کاٸنات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے وجود اس کے لیے کیا اہمیت رکھتا اور اب اس سوچ کے زاویے کا رخ ایک نیا انداز اپنا لیتا ہے کہ اس کا بچہ پیدا ہونے کے بعد رویا کیوں نہیں۔۔ ؟ جسے وہ مردہ گھاگھر میں ڈال آٸی ہے۔۔ گویا اس کے نزدیک ذات کی تلاش کا سفر زندگی کے وجود سے موت کی آغوش تک جاری ہے۔۔ جب گاوں کے لوگ دریا کے خشک ہونے پر گاوں چھوڑ جاتے ہیں تو وہ ایک مٹھی کنک کے سہارے امید کی آس جگاۓ اسے آباد رکھتی ہے کہ اسکی زمین اور کھیت پھر سے سبز و شاداب ہوکر لیلہاٸینگے۔۔۔ پاروشنی محبت ، یقین ، امید کی علامت ہے جو اپنی دھرتی کی محبت میں آخری دم تک ہمت نہیں ہارتے۔۔ محبت انہیں ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔۔
دھم۔۔۔۔۔ ہؤو۔۔۔۔۔۔ دھم۔۔۔۔ ہوؤ
پاروشنی کے پیروں میں ریت اسکے پسینے سے گیلی ہوتی تھی۔۔۔ گھاگھرا کے اونچے کناروں کے اندر اب خشک راستہ آخر تک چلے گا جس میں صرف ٹھیکریاں ہوں گئی اور خشک گھونگھے ہوں گے اور پکلی کے آوے سے کبھی دھواں نہیں اٹھے گا اور چیتر کی چاندنی میں گھاگھرا کے پانی کبھی نہیں لشکیں گے۔۔۔ وہ یہ سب جانتی تھی اور پھر بھی وہ کنک کوٹتی تھی کہ اس کے پاس آدھی مٹھی کنک تھی اور اسکے کھیت ہرے ہونے تھے۔۔
دھم۔۔۔۔۔ ہؤو۔۔۔۔۔۔ دھم۔۔۔۔ ہوو

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button