خانہ بدوش……. رابعہ احسن
خانہ بدوش
ذات کی دربدری جیسی خانہ بدوشی کبھی سمجھ نہیں آتی جہاں وسیع آسمان کے رنگوں کے ساتھ زمین اور زمان کے دائرے میں رہ کے بھی سوچیں بھٹکتی ہیں خیال کبھی ایک رستے پر خیمہ لگا کے بیٹھ جاتے ہیں تو جس کی اراضی ہو ادھر سے دھتکار تو ایک فطری عمل ہے پھر وہی مکانوں میں بستی ہوئی روحوں کی لامکانی۔
ان خیالات کی بھی ہزارہا جہتیں ہوتی ہیں اور پھر ازلی خانہ بدوش یہ تو سرحدوں تک کی حدوں سے آزاد اور ہر طرح کے خوف سے ماورا کہیں بھی خیمہ زن ہوکے پڑجاتے ہیں اور یہ بے ضرر مخلوق ان کے وجود کا ادراک ان جیسے دربدروں کو ہی ہوسکتا ہے
پر یہ جو خانہ بدوشی ہے نا یہ کہیں سکون نہیں پاتی اپنے بے وقعتی اور کم مائیگی کا احساس انھیں بھٹکاتا ہی چلاجاتا ہے اور یہی وہ دربدری ہے ذات کی خانہ بدوشی ہے جو بالآخر اپنے رب کے ہونے کا احساس دلاتی ہے جو ہم بھٹکے ہوؤں کو اپنے قریب کرتا چلاجاتا ہے اور یہ خانہ بدوشی راس آجاتی ہے خود آگہی کا پہلا پڑاؤ یہی ہے کہ اپنی ذات دربدر نظر آتی ہے اور دنیا بھر کی آسائشیں بھی اس کمی کو دور نہیں کر پاتیں
رابعہ احسن