غروب آفتاب……….عبدالسلام
لاس ویگاس کی رنگینیوں میں بھی دل کے خانوں میں ایک خلا ‘ آنکہی اداسی ‘ تنهایوں کی پرچہانیوں نے بسیرا کیا ہوا تھا ۔ اسی حال میں سمندر کے کنارے پہنچا وہاں ایک بھٹکی ہوی روح کی طرح گھوم رہا تھا ۔ دور کسی بینچ پر ایک زی روح ڈوبتے ہوے سورج کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے یونان کی دیو مآ لائی کہانیوں میں لوگ دیوتا کی عبادت کر رہے ہوں ۔ میں ادھر پہنچا ہیلو کہا اس نے ایک جاندار مسکراہٹ کے ساتھ خوش آمدید کہا ۔ ہمارے درمیان کچھ دیر خاموشی رہیں ۔ سمندر کی پرجوش لہریں اس خاموشی میں ہمیں اپنی طرف متوجھ کرتی تھی ۔ اس نے خاموشی کو تھوڑا ۔ کہنے لگا ۔ غروب آفتاب کو لوگ افسانوی رنگ دیتے ہیں ۔ زوال ‘ بے و فآ ی اور ناکامی کا تشبیہ دیتے ہیں ۔ میرا باپوں کہتا تھا پتر ۔ یہ ڈوبتا سورج کامیابی کا چیخ چیخ کر الان کرتا ہے ۔ ایک نے جیون کا ۔ امنگ اور ولولے کا ۔ آج میں ڈوب گیا ۔ کل ایک شان کے ساتھ زمین کی دہلیز پے قدم رکھونگا ۔ بہت باتیں ہوی ۔ وہ چلا گیا ۔ لیکن کا عجیب منطق سامنے رکھا ۔ اللّه اپنی کائنات میں انسان کے لیے کامیابیوں اور حوصلے کا کوئی جواز نکآل لیتا ہے تب ہی وہ قرآن پاک میں کہتا ہے کہ میری کائنات میں غور کرو فکر کرو اس میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہے ۔ اس بندہ کو آج روزانہ دنیا کے ہر اخبار اور ٹیلی ویژن پر دیکھتا ہوں ۔ سوچ میں ہوجاتا ہوں کہ ہاں اس نے غروب آفتاب میں اپنے لیے کامیابی ڈھونڈی تھی ۔