کتاب : تلاش
باب 5 : آٹے میں پانی، دودھ میں سفیدی
ٹرانسکرپشن : شبانہ حنیف
جانے۔۔۔۔ ان جانے
” صوفیوں نے ہمارے لاشعور کے پنجرے میں اللہ میاں کا مٹھو بند کر دیا ہے۔۔ ہم ان جانے میں اللہ کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ ان جانے میں اللہ کے حضور دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ ان جانے میں اپنی امیدیں استوار کئے بیٹھے ہیں۔۔”
چچا رک گئے۔۔ کچھ دیر تک خاموش رہے۔پھر بولے: ” صرف لاشعور ہی نہیں ، شعوری طور پر بھی اللہ ہمارے ذہن سے نہیں نکلتا۔۔ کسان صبح اٹھ کر جب آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو وہ آسمان کو نہیں دیکھتا۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ آسمان کے پیچھے اللہ بیٹھا ہوا ہے۔ وہ بادلوں کی طرف نہیں دیکھتا۔۔ اسے احساس ہے کہ اللہ بادل لاتا ہے ، اللہ مینہ برساتا ہے ، اللہ ہوا چلاتا ہے۔۔وہ اللہ کے حوالے کے بغیر کچھ نہیں دیکھتا۔۔ موسم بذات خود اس کے لئے کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ بد بختی ، خوش بختی ، خوشی ، غمی ،رزق سب کے پیچھے اللہ موجود ہوتا ہے۔۔”
کچھ دیر کے لئے وہ پھر رک گئے ، پھر بولے
” اب تم ہی بتاؤ کہ اس کے علاوہ اسلام کا نفاذ اور کیا ہوگا؟ “
میں نے کبھی اس زاویہ نظر سے نہیں سوچا تھا۔۔ میں نے چچا سےپوچھا تو وہ بولے:
” تم سمجھتے ہو ، اسلام قانون سے آتا ہے۔ یہی تمھاری بھول ہے۔ اسلام قانون سے نہیں بلکہ کلچر سے آتا ہے ، جذبات سے آتا ہے ، لا شعور سے آتا ہے۔۔”
“لیکن یہ جو سیاسی ہیراپھیریاں ہیں ، مفاد پرستیاں ہیں ، شر اور……..”
چچا میری بات کاٹ کر ہنسے۔۔ بولے: ” یہ جو دودھ بھری چاٹی ہے نا، چھلک چھلک کر اس کے اوپر مکھن آ گیا ہے۔ طمع اور حرص کی وجہ سے یہ مکھن زہریلا ہوگیا ہے۔۔ اس زہریلے مکھن کو اتار پھینکو گے تو نیچے کا خالص دودھ ہی دودھ ہے۔”