بانو قدسیہ کی زبانی
جب کوئی بزُدل بہادر میدان ِجنگ ہار کر شام کے اندھیرے میں معدوم ہوتا چلا جاتا ہے تو فنا اس کی ناطاقتی کا فائدہ اُٹھا کر ایسا بھالا مار گراتی ہے کہ دیر تک فضا میں اس کے گرنے کی صدا کبھی آہستہ کبھی Echoبن کر آتی رہتی ہیں۔ اسے زمانہ دیر تک بھول نہیں پاتا۔
ممتاز مفتی کے جانے کے بعد ابھی تک اس کے گرنے کی دھب دھب سنائی دیتی ہے اور ہم اس جگت استاد کی باتوں سے خالی نہیں ہوئے۔ آپ سب مفتی جی کی شخصی حکومت سے تو واقف ہیں، اور انہیں مجھ سے بہتر طور پر جانتے سمجھتے اور پہچانتے ہیں لیکن ایک بات کا شاید آپ کو علم نہ ہو کہ مفتی جی خلاصی تھے۔ پتہ نہیں حرفت سے اتنا گہرا شغف عکسی مفتی نے ان سے اخذ کیا کہ مفتی جی نے لوک ورثہ کے عکسی کی نقالی میں میخچوہاتھ میں پکڑا اور خیمے اُستارنے اور شامیانے،چھولداریاں کھڑا کرنے کا فن سیکھا۔ شادی بیاہ کی رسومات سے پہلے صبح کے وقت تنبو، قناتیں لگانے والے آیا کرتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال سے شبہ نہیں ہوتا کہ یہ میخیں ٹھونک ‘ طنابیں کھینچ رسیوں میں گانٹھیں ڈال یوں شامیانے قناتیں لگائیں گے کہ جنگل میں منگل ہو جائے گا۔
مفتی جی بھی گُنیاآدمی تھے۔ ان کا بنیادی پیشہ بھی شامیانے،چھولداریاں، قناتیں، دو آشیانے اور شبنمی سائبان نصب کرنا تھا۔ وہ توجہ سے میخ ٹھونکتے، پھر ڈھیلے کپڑے کی اٹھان آنکتے اور طناب کو جھٹکا دیکر ایسی گرہ دیتے کہ پل بھر میں شاہی خیمہ مغلوں کی یاد دلانے لگتا۔ مفتی جی انسانی سرشت کے بڑے نباّض تھے۔ انہوں نے داروغہ گھاٹ کی طرح رنگ رنگ کے آدمی کو قریب سے دیکھا تھا۔ ان کے ارد گرد وقت ضائع کرنے والے جھگڑالو، ناکارہ اور احساسِ کمتری میں مبتلا لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ یہ بے جان گرے پڑے کپڑے سے دھلے زمین دوز لوگ مفتی جی کی کاریگری کے منتظر رہتے۔ وہ بڑی آسائش، چابکدستی اور ہنر مندی سے ان لوگوں کو منڈل ‘ درباری ‘ شامیانہ‘ عجائبی چھولداری کی طرح کس کسا کر قابل دید بنا دیتے۔
مفتی جی نے ساری عمر سکول ماسٹری نہ چھوڑی۔ وہ ڈوبتے کو تیرنا سکھاتے تپ دق کے مریض کو ٹینس کا ریکٹ سید ھا پکڑ نے کی ترکیب بتاتے۔ کبھی شاباش دیکر کبھی مرغا بنا کر (Attention) کا کاشن دیتے کبھی فرائیڈ کی طرح آنکھ مار کر چوری چوری پکڑ لینے کا سبق دیتے۔ کبھی قدرت اللہ شہاب کی لاٹھی تھما دیتے کہ لے بچہ رام بھلی کرے گا۔ جب تک انسانی سرشت سے واقفیت کم تھی جنس میں پناہ تلاش کی۔۔۔ وسعت پیدا ہو گئی تو سرنگوں سوالی کا رشتہ غیب سے جوڑ کر آسرا دے دیا۔۔۔۔۔ اس خیمے نصب کرنے والے کا بس ایک ہی مسلک تھا۔ وہ کسی کو سینے پر سر جھُکا کر بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ اس کے اندر رنگ ماسٹر ‘ سکول ٹیچر اور ڈرل ماسٹر اکھٹے رہتے تھے۔ اس لیے عموماً جس کی مدد کرتے اس کے جسم میں آنکھیں ضرور پیوست کر دیتے۔ اسے زندہ کرنے اور رکھنے کے لیے شاک تھراپی بصورت جھڑپ اور جھنجھٹ اور جھگڑا رکھتے۔
خودمفتی جی کو نہ شور پسند تھا نہ جھگڑا ، وہ تو ایسی موسیقی بھی پسند نہ کرتے تھے جو ناچنے پر مجبور کر دے، لیکن کسی گری چھولداری ،الجھے ہوئے شامیانے کو دیکھ کر وہ فورا اعلان جنگ کر دیتے۔ میدانِ جنگ میں گھسیٹ لینے کے بعد انہیں یقین ہوتا کہ اب ہر مردہ اپنا بچاﺅ خود کرے گا۔ خوشبودار پان ‘ ہومیوپیتھک پڑیاں ‘ بحث مباحثہ اُن کی warming up ورزشیں تھیں۔۔۔اصل تعلق بہت بعد میں استوار ہوتا۔
پتہ نہیں کیوں اور کیسے جو حقیقتیں خبر گیر اور دیر پا ہوتی ہیں۔ ان کے نزول و ورود کا صحیح طور پر اندازہ نہیں ہوتا، وہ جنگ میں چلنے والی پہلی گولی کی طرح اچانک اور نتائج میں دور مار ہوتی ہے۔ قدرت اللہ شہاب کے ساتھ ممتاز مفتی ‘ اشفاق احمد اور انشاء جی کب اور کس طرح مربوط ہوئے۔۔۔ منبع کہاں تھا اور کیوں تھا یہ لمبے تجزیے اور قیاس پر مبنی ہیں لیکن اتنی بات طے ہے کہ شہاب صاحب کے حضور ممتاز مفتی کاریگر نہ تھے۔ ان کے ہاتھ سے طنابیں ‘ رسیاں ‘ میخچو سب گر گئے اور وہ خود ایک پھٹی ہوئی چھولداری بن گئے۔ عاشقوں کے مابین ربط ہاہمی کے علاوہ تھوڑا بہت حسد ِخفی بھی ہوتا ہے۔ شہاب صاحب سے توجھگڑے نے کبھی جنم نہ لیا۔ لیکن ان یاروں کی آپس میں بے باکی بڑھ گئی۔
ان دنوں ہم سمن آباد میں رہتے تھے۔ ابھی مفتی جی ہماری طفل تسلیوں میں مشغول تھے۔ ہم دونوں نے پرپرُزے نہ نکالے تھے کیونکہ غریبی کا زمانہ تھا۔ آپ جانتے ہیں۔ غریب آدمی یا تو بات نہیں کرتا یا پھر کہہ سُن کر پچھتاتا ہے۔ شہاب صاحب سے ابھی مفتی جی کا سمبندھ نہ بنا تھا اور ہم پر یہ چارج تھا کہ ہم ایک بڑے افسر کی خوشامد در آمد میں مبتلا رہ کر اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ اس پر دو چار بار مفتی جی نے ہمیں آنکھ مار کر چالو کرنے کی کوشش کی لیکن ابھی ہم اپنا نقطہء نظر، آرزو اور عندیئے کو سمجھانے کے قابل نہ ہوئے تھے۔ اس لیے چپ چاپ جنم روگی بنے رہے۔
لیکن1967ءتک ہم بھی کچھ کچھ شتر بے مہار ہو گئے۔ ہمیں بھی نظریاتی بحثوں میں لطف آنے لگا۔ ہم 75 جی میں مقیم تھے اور اظہار برملا کی عادت پڑنے کو تھی۔ یہاں مفتی جی سے پہلی جھڑپ ہوئی۔ ادیب چونکہ ایک ہی مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا دعوی کرتے ہیں۔ اس لیے آپس میں جھپٹنے کی ناسمجھی ہو ہی جاتی ہے۔ لیکن مفتی جی اور میں تو ہمیشہ مختلف سمت میں دیکھنے کے عادی تھے۔ تعجب کی بات صرف یہ ہے کہ ہر اختلاف کے بعد مفتی جی مجھ پر زیادہ مہربان ہو جاتے اور میں اس خیمہ ساز پر پہلے سے زیادہ اعتماد کرتی۔ اس لئے جھگڑا لازمی تھا۔
75 جی ماڈل ٹاﺅن کی ایک پرانی کوٹھی تھی۔ اس کا ڈرائیووے نصف دائرے کی شکل میں دو پھاٹکوں پر منتہج ہوتا تھا۔ راستے کے گھیرے میں ایک کھُلا لان تھا۔ شام گزر چکی تھی۔ پورچ کی دھیمی بتی براﺅن فوکسی پر پڑ رہی تھی۔ سمن آباد کے دس مرلہ مکان سے یہاں کا کھلا گھر مختلف تھا اور ایک نئے ایکسپوزر(exposure)کا باعث بھی ہوا تھا۔ اب بات کرنے سے پہلے چپ نہیں لگتی تھی۔
مفتی جی نے ڈرائیووے پر بکھری پڑی اینٹ اٹھائی اور اس پر بیٹھ گئے۔ ۔۔ میں نے ان کی نقل میں ایک براﺅن اینٹ کو جھاڑ کر رکھا اور اس پر جم گئی۔ اچھا زمانہ تھا گھٹنے ابھی ایسی نشست قبول کرتے تھے۔
مفتی جی گویا ہوئے ” تم نے جو خط لکھا تھا اس سے دوستی کی خوشبو ہر گز ہر گز نہیں آتی وہ خیر خواہی پر مبنی ہے اور گو میں کمینہ ہوں لیکن دنیا دار نہیں ہوں۔“
میں اس جرم بکار سرکار کی پیشی کے لیے تیار نہ تھی۔ میں نے خط کی وضاحتیں پیش کیں۔ مفتی جی اور میرے درمیان احترام اور تعلق کی جو دیوار حائل تھی اسے بار ِثبوت کے لئے پیش کرنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ ڈرتے ڈرتے بارک ماسٹر مفتی جی سے عرض کی کہ میرے نزدیک دوستی کی اہم ترین باقی جمع خیر خواہی ہے اور کسی طور بھی اسے ہاتھ سے چھوڑنا بالک چوری ہے۔
مفتی جی کا موقف تھا کہ دوستی میں خیر خواہی قسم کا زہر نہیں ملایا جاتا یہ راستہ سمجھانے کا نہیں ساتھ چلنے کا عمل ہے۔ میں بضد تھی کہ دوست کا اولین فرض دینی بھائی کی طرح گرنے سے بچانا۔ آگ میں بھسم ہوتے نہ دیکھ سکنا اور فقیری گٹکے استعمال کر کے غلط راستوں سے روکنا ہے۔ انہوں نے سختی سے الزام لگایا کہ یہ خیانت مجرمانہ ہے اور مجھ جیسے متحسب کا میخانے کی سرمستی سے کوئی سروکار نہیں میں نے ہانک لگائی کہ نیت پر شبہ کرنا دوستی کی توہین ہے۔ وہ بولے ذاتی جوہر سے محروم کی قیمت آنکنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟
ہم دونوں اپنے اپنے نظریے پر جمے رہے بحث لمبی ہوتی گئی لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچی جب بچوں نے آ کر اینٹوں سے اٹھایا تو مفتی جی میرے بہترین بہی خواہ تھے اور میں نے دوستی کا علم اٹھا لیا تھا۔ وہ میرے دلائل دے رہے تھے اور میں ان کا علم اٹھائے ہوئے تھی۔ یہ میچ ڈرا Draw ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ فضا بہت خاموش رہی اور دونوں نے ہر قسم کے میچ سے بائیکاٹ کر لیا۔
مفتی جی کو شاید نماز اور خوشبو زیادہ پسند نہ تھی لیکن وہ نفسیاتی ، جبلّی اور جذباتی طور پر عورت سے بہت وابستہ تھے۔ وہ عورتوں کے رابن ہڈ تھے اور اپنے اس رول پر فخر بھی کرتے تھے، جب کبھی کوئی شخص کسی سے محبت کرتا ہے تو اس میں بدو بدی محبوب کو مظلوم سمجھنے کی خوبی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مفتی جی کے اعصاب پر اپنی ماں اس درجہ طاری تھی کہ پھر ساری عمر وہ ہر عورت کو مظلوم ہی سمجھتے رہے۔ عورت کے مقدمے کی پیشیاں بھی وہ مفت ہی بھگتتے رہے اور کبھی مقدمے کے لیے کسی عورت سے مسکراہٹ بھر معاوضہ بھی قبول نہ کیا۔
ہم دونوں کی جھڑپ اس سلسلے میں ہوتی رہتی تھی۔ میںکہتی ” مفتی جی سوچ میں ڈنڈی نہ ماریں، انصاف سے کام لیں، انصاف سے۔ جو صدیوں مرد کا مال کھاتی رہی ہے اس مظلوم نے بھی استحصال کرنے کے کچھ شعوری لاشعوری طریقے سیکھ لیے ہوں گے۔۔۔مفتی جی ظلم کے خلاف لکھیں مظلوم تو بدلتا رہتا ہے۔ کبھی مرد ظالم ہوتا ہے کبھی عورت۔۔۔یا یوں کہیے دونوں ہی کبھی بیک وقت کبھی الگ الگ مظلوم ہیں۔ ہمیشہ مزدور کو مظلوم سمجھنے سے وہی انجام ہو گا جو روس کا ہوا۔۔۔ہمیشہ حکومت کو ظالم سمجھنے سے پاکستان جیسے ناقابل فہم حالات پیدا ہو جاتے ہیں “۔
مفتی جی دعویٰ پیش کرتے ” کڑئیے عورت پر مرد نے صدیوں ظلم کئے ہیں وہ اسے مارتا ہے اسے جوتی کی طرح استعمال کرتا ہے۔ اس کی آزادی سلب کرتا ہے “
میں عداوت کے انداز میں اپیل کرتی ” مفتی جی سوچ سیدھی کریں آپ کی بات درست ہے لیکن ہمیشہ نہیں۔ کبھی معاشرہ ظالم ہوتا ہے کبھی فرد۔۔۔زرعی دور کی اپنی مصیبتیں تھیں ، مشینی دور کے اپنے ظلم ہیں۔ اب روزی کمانا اور روزی خرچ کرنا اپنی اپنی جگہ ظلم کے مقامات ہیں۔ مرد اور عورت دونوں ان پرنالوں میں بھیگتے رہے ہیں “
مفتی جی کی براﺅن آنکھیں غصے سے اور بھی پھیل جاتیں ” اوئے بیوقوف احمقے عورت تو دکھنا چاہتی ہے پھول ہے پھول “۔
” تو دکھ تو رہی ہے مفتی جی۔۔۔کبھی ماڈل بن کر، کبھی چھوٹی یا بڑی سکرین پر جگمگا کر۔۔۔روک کون سکتا ہے اسے“۔
مفتی جی بپھرجاتے۔۔۔” مرد کا ظلم یہ ہے کہ وہ عورت کو دکھنے نہیں دیتا۔ اسے چادر اور چار دیوادی میں بند رکھتا ہے۔ اسے اپنا نیچرل ٹیلنٹ استعمال نہیںکرنے دیتا ، اسے مشقت کے حوالے کر دیتا ہے “ میں بھی کنیر کا پھول بن جاتی ” مفتی جی اگر آپ اپنی آنکھوں سے یہ براﺅن کانٹیکٹ لینز (contact lens) اتار دیں تو آپ کو پتہ چلے کہ مرد اور عورتیں بنیادی طور پر دونوں مشقتی ہیں۔ دکھنا دکھانا بہت کم سالوں کی عیاشی ہے۔ دونوں کی مشقت مختلف ہے۔ وہ ساری عمر کفالت کرتا ہے اور اندھا ‘ کبڑا اور ناطاقتا ہو کر آخری عمر میں کھانستا رہتا ہے۔ آخر کو اکیلا ہی سدھار جاتا ہے۔ عورت کی مشقت رنگ لاتی ہے۔ بڑے ہو کر بچے رکشا پر لکھاتے ہیں ”ماں کی دعا جنت کی ہوا“ ۔۔۔۔مرد ساری عمر جھڑکیاں کھا کر دھکے برداشت کرتا ہوا کفالت کی راہ نہیں چھوڑتا۔ مکان بنواتا ہے پردیسوں کی مٹی پھانکتا ہے۔ آخر میں جوان بچے کہتے ہیں ابا جی اگر آپ کوئی ڈھنگ کا کام کر لیتے تو زندگی نہ سنور جاتی۔۔۔“
”تیری کوئی بیٹی نہیں اس لیے تو کنیا دان نہیں جانتی کٹھور عورت کچھ ظلم مرد خصوصی طور پر عورت کے وجود اس کی وفا اور جذبات پر کرتا ہے۔۔۔“
” اور مفتی جی ایسے مظالم عورت کبھی بھی مرد کی خاطر برداشت نہیں کرتی۔ اسے بچے کی خاطر ظلم کی بانبی میں ہاتھ دینا ہوتا ہے۔ اگر مرد عورت کا قافیہ تنگ کرے تو علیحدگی کا راستہ ہے لیکن اگر بچہ عورت پر ظلم کرے تو وہ اس کا کسی سے ذکر نہیں کرتی۔“
”تم کیا ہو۔۔۔دیکھتی نہیں ہو کہ عورت کی جوانی کتنی رائیگاں جاتی ہے باقی کیا رہتا ہے کچھ سال کے بعد۔۔۔“
” اس لیے مفتی جی کہ باقی رہنے کے لیے اپنے میں گن پیدا کرنے پڑتے ہیں‘ جب ماڈل بن کر کام چل سکے تو عورت اپنے میں وہ گن کیوں پیدا کرے جس کو حاصل کرنے کے لیے برسوں درکار ہوتے ہیں۔ اپنے لیے کسی وصف کا تلاش کرنا تو صحرا کا سفر ہے‘ مفتی جی پانی ملے ملے نہ ملے نہ ملے۔“
اب نہ مفتی جی رسی کا سرا چھوڑتے نہ میں رسی ڈھیلی کرتی۔۔۔بحث کھنچتی وہ حیران ہوتے کہ میں عورت ہو کر عورت کو مظلوم نہیں سمجھتی ،میں اس بات پر بضدرہتی کہ بات صرف ظلم کی ہونی چاہیے،مظلوم بدلتا رہتا ہے۔۔۔ کبھی مرد ظالم کبھی عورت۔۔۔اور ظلم کا تیسرا کونہ بچہ۔۔۔بچے جیسا ظالم تونہ دیکھانہ سنا لیکن اس کے خلاف کون سی عورت ہے جو زبان کھولے؟
آخر مفتی جی میچ فکسنگ کے لیے مشورہ دیتے بحث ہار جیت کے بغیر ختم ہو جاتی تو مفتی جی کہتے ”کاکو ہم دونوں ملکر ایک کتاب لکھیں عورت پر۔۔۔ ایک باب تم لکھو۔۔۔ایک میں۔۔۔کتاب چھپ جانے تک نہ تمھیں علم ہو کہ میں نے کیا لکھا ہے اور نہ مجھے معلوم ہو کہ تمھارے خیالات کیا ہیں۔۔۔“ ہماری بحثوں کی طرح یہ منصوبہ بھی ادھورا رہا لیکن مجھے اتنا ضرور علم ہے کہ اگر یہ کتاب لکھی جاتی تو مفتی جی اس کا سارا کریڈٹ مجھے دیتے اور سارا الزام اپنے سر لیتے کہ ان کی محبت میں اولین ریت ہی یہ تھی۔
آج کے زمانے میں جب ہر انسان کو اپنے متعلق یہ یقین ہے کہ وہ حساس بہت ہے اورلوگ اس کا دل دکھانے میں مشاق ہیں ایسے لوگوں کو علم نہیں کہ اصلی بڑا ادیب اپنے معاملے میں کبھی حساس نہیں ہوتا۔ وہ چور ،وِلن، آوارہ عورت، سمگلر، دہشت گرد حتیٰ کہ قاتل کے بارے میں بھی حساس ہوتا ہے۔ لیکن مفتی جی کی طرح اپنی اسے پروا نہیں ہوتی۔ کچھ ادیب تو اشفاق احمد کی طرح اس درجہ دو دلے ہوتے ہیں کہ اپنی تحریر میں کوئی وِلن ہی تخلیق نہیں کر سکتے اور ہمیشہ کہانی میں خیال ، ارادے، تجویز کو دشمن انسان بنا کر دوزانو ہو کر سارے کرداروں کے سامنے ہی بیٹھے رہتے ہیں۔
مفتی جی نے اپنی زندگی کے کسی مقام پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ حساس ہونا چھوڑ دیا جائے اور لوگوں کا منہ بند کرنے کا بہترین نسخہ یہ ہے کہ انسان اپنے ظاہر اور باطن کے تمام عیوب خود بیان کرنے میں مصروف رہے۔ مفتی جی بھی میری طرح خوفزدہ شخصیت کے مالک تھے۔ ایسے پُر خوف آدمی جو شدید خوف کی حالت میں تلوار لیکر میدان جنگ میں اتر جاتے ہیں۔ مجھے ان کے سچ سے بڑی چڑ تھی اور میں اس سلسلے میں کئی دھرنے دے چکی تھی۔
مفتی جی ۔۔۔آپ کو اپنی ذات کے متعلق سچ بولنے کا صرف اتنا حق ہے کہ آپ اپنے آپ کو گزند پہنچائیں جب آپ سارے گھرانے کو اپنے دوستوں کو سچ کی وجہ سے آزار میں مبتلا کر دیتے ہیں تو یہ زیادتی ہے۔ ہم سچ ضرور بولیں۔۔۔ لیکن اپنے حصے کا۔۔ مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنے سچ سے کسی دوسرے کی زندگی میں زہر گھولوں۔“
لیکن مفتی جی تو بزدل بہادر تھے ٹین کی تلوار لیکر نکلنے والے سپاہی تھے۔ ان کی پتلیاں خوف سے پھیل جائیں اور وہ بضد ہو کر چیختے۔۔۔ ” لیکن سچ سچ ہے۔۔۔ ارسطو نے سچ کی خاطر زہر پیا۔۔۔ تم مجھے سچ بولنے سے روکتی ہو۔“
” مفتی جی اگر آپ ارسطو جیسا سچ بولیں تو میں کبھی اعتراض نہ کروں، آپ تو ایکڑسوں کی طرح سچ بولتے ہیں۔ ایسے سچ سے شیخی کی بو آتی ہے۔ My love life جیسے سچ کی واقعی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔اس سے صرف سکینڈل پھیلتا ہے اور دوسری زندگیاں محروم ومجروح ہوتی ہیں۔“
”پھر پھیلے سکینڈل پھیلے۔۔۔مجھے پرواہ نہیں۔۔۔“
مجھے جوش آجاتا ” لوگوں کو بیمار پا کر آپ انہیں ہومیوپیتھک پڑیاں پہنچاتے ہیں۔ ساری عمر چھولداریاں، شامیانے اورقناتیں استوار کرنے میں بسر ہوئی ہے۔ آپ کے خاکے پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ آپ کی دریا دلی اتنی ستر پوش ہے کہ سارے عیوب کو پھولوں کی چادر اوڑھا دیتی ہے۔ پھر اپنے پر یہ ظلم کیوں اپنے تنے سے وابستہ شاخوں کو یوں چھیلنا کیا معنی رکھتا ہے۔ پھر یہ تضاد کیوں؟
مفتی جی کی زندگی میں مجھے بالکل علم نہ تھا اور اب بھی کم کم مجھ پر یہ حقیقت کھلی ہے کہ تضاد ہی حضرت آدم کے ضمیر کا جزو اعظم ہے۔ جتنی بڑی شخصیت ہو گی اسی قدر بڑا اس کے اندر تضاد بھی رسہ کشی میں مبتلا ہو گا۔ بڑے ادیب، آرٹسٹ، کلاکار کے اندر کی یہ صلیبی جنگیں اسے کبھی قرار سے بیٹھنے نہیں دیتیں۔ یہی جنگ اس کے خون جگر کا باعث بنتا ہے اور اسی سے اس کے فن میں کمال کی چاشنی گھلتی ہے۔
شکر ہے میرے حصے تو ہمیشہ ان کی دریا دلی ہی آئی جس میں میرے تمام خس و خاشاک بہہ گئے لیکن اپنے لیے انہوں نے جوگیوں کی طرح کانٹے کا ایک فرش بنا رکھا تھا‘ جس پر چلنے کی پریکٹس وہ صبح و شام کرتے تھے۔
ان سے میری آخری بحث سیب کے درخت پر ہوئی تھی۔
سن پچاسی کے شروع میں میری کوتاہی، کمزوری اور تساہل پسندی نے مجھ میں ایک خاص قسم کا فرار پیدا کر دیا تھا۔ میں نے پہلے ٹیلی ویژن کو خیر باد کہا پھر آہستہ آہستہ لکھنے لکھانے سے مکمل انحراف اختیار کر لیا۔ مفتی جی سے میرا یہ ڈپریشن برداشت نہیں ہوتا تھا وہ مجھے کہتے:
” تو سیب کا درخت ہے۔۔۔تجھے سیب ہی لگتے رہیں تو ٹھیک ہے تو کس وخت میں پڑگئی ہے۔۔۔“
”مفتی جی۔۔۔سیب کا درخت کبھی کبھی بانجھ بھی ہو جاتا ہے۔“
اگر کچھ سال بارش نہ ہو تو باغ سوکھ جاتے ہیں ، درختوں کی کیا مجال ہے؟ مفتی جی بھڑک اٹھتے۔ میں چپ رہتی ” نہیں ۔۔۔یہ بات نہیں ہے۔۔۔۔تو کہیں گم ہو گئی ہے اور تو اپنا بنیادی کام نہیں کرنا چاہتی بیوقوف۔۔۔ ہم لوگ صرف لکھ سکتے ہیں۔ ہم یہاں صرف لکھنے کے لیے آئے ہیں یہ سوچ کیا لکھنا ہے کیسے لکھنا ہے بس لکھ۔۔۔ باقی سارے کام اضافی ہیں ۔“
میں انہیں بحث میں بہت دور لے جاتی۔ وہ جو کلے ٹھونکنے ، رسیاں کھینچنے اور شامیانہ کھڑا کرنے کے ماہر تھے بحث میں ہار جاتے۔۔۔ ممتاز مفتی ساری عمر ہار ماننے والا نہ تھا۔ سر جھکا کر بیٹھ رہتا اور سمجھ نہ سکتا کہ اس کی وہ طاقت کہاں گئی جو لمحوں میں ہر بحث جیت جایا کرتی تھی۔
اس کا ریگر کو علم نہ تھا کہ زندگی اسی طرح ناطاقتی پیدا کرتی ہے۔۔۔پہلے انسان فنا سے ہارتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔ مشن پر ہو تو بھی ہارتا ہے، ادھورا رہ جائے تو بھی شکست سے آشنا ہو جاتا ہے۔۔۔ بہادر انسان جو خوفزدہ بھی ہو اس کے ہار جانے کا منظر بھی عجیب ہے۔۔۔ شکستہ رو سپاہی کا رِزار سے چلا تو جاتا ہے لیکن یہ منظر اس کے چاہنے والوں کو کبھی بھولتا نہیں۔۔۔ جانے والے نے اتنی جگہ آپ کے دل میں گھیری ہوتی ہے کہ مدتوں یہ خلا بھرتا نہیں۔ دیر تک اس کے گرنے کی آواز آتی رہتی ہے۔۔۔ کبھی سائیں سائیں بن کر کبھیEcho کی طرح پھیلتی ہوئی۔ اسکے ذکر سے لوگ خالی نہیں ہوتے۔
Bohat khob, ya meri khush nasebi hey kay mean aap ki friend list mean hoon,
Aap jesay ahl-e-qalam ki bdolat hi ab tak tahrer zinda hey,owr adab ka shamiana apni tmam ter sjawat kay sath pedny waloon kay lya jungal mean mangal kar raha hey,Aap ki inn tahreroon ka badal tho koi kya day pay ga siway iss kay kay khuda ka shukar ada kary kay abhi aap jesy qalam kar mojood hey jin ki bdolat adab ka mustaqbil tareek nahi ho sakta.Allah aap ko sehat owr haseen zindagi say mala mal rakhey,AMEEN
Mere pass Mufti sshib ka aik khat hai 1983 ka main usey is site pur post karna chahta hoon
kindly send it to [email protected] .. we will publish it with your credit