ایک ملاقات عکسی مفتی سے – ہم شہری
گلوگردی اور دھرنا کریسی کے اس عہد میں جب ہم کسی دانشور سے مکالمہ کرنے نکلتے ہیں تو ہمیں ہر قدم پر نئی صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔یہ سب کسی سکرپٹ کا حصہ ہے،ہے تو کیا مقامی ہے یاعالمی،کب سے کس کہانی کے تانے بانے بنے جارہے ہیں۔عکسی مفتی نے اس کا کیا جواب دیا، اُن کی زبانی سنیے’’ایک حد تک آپ کی بات درست ہے،پہلے تو یہ سکرپٹ تھا اور اس کے مطابق چلتا رہا،لیکن پھر وہی ہوا جو ہمارے ہاں ہوتا ہے،جب اسٹیج امان اللہ،سہیل احمدیا عمرشریف کے ہاتھ آتا ہے تو پھر بندہ کچھ نہیں کر سکتا،جو کرنا ہوتا ہے،وہ شیرنے کرنا ہوتا ہے،یعنی تھیٹر جگت بازوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور وہ من مانی پر اُتر آتے ہیں۔یہی حال ان دونوں دھرنوں کا ہے۔ون مین نہیں ٹو مین شو ہوگیا ہے، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔عمران خان کو یہ زعم ہوگیا ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے پاپولر سیاستدان ہیں، ایک حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن جب وہ رعونت پر اُتر آتے ہیں تو پرلے درجے کے مجہول لگتے ہیں۔سیاست جہلا کے ہتھے چڑھ گئی ہے اور ہم اعصابی اور نفسیاتی مریض ہوگئے ہیں۔دھرنے کے کچھ فوائد بھی ہیں،جمہوریت اور سسٹم کو بچانے کے لیے سب اکٹھے ہوگئے،یہ دھرنے کی برکت ہے کہ کچھ اصلاحات کا فیصلہ بھی ہوگیا ہے۔ ممکن ہے دھرنے جاتے جاتے بلدیاتی انتخابات،نیا بجٹ اور انتخابی اصلاحات کرجائیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ سیاسی ایلیٹ میں ایک اور پارٹی کا اضافہ ہوجائے۔آپ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ عالمی اور مقامی طور پر سکرپٹ لکھنے والوں کا اصل ہدف کیا ہے، تو عرض کیے دیتا ہوں۔آئی ایس آئی،پاک فوج اور ایٹم بم اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی چاکری بھی۔یہی عالمی ایجنڈا ہے اور اس کے لیے کئی برس پہلے منصوبہ بندی کی گئی تھی، میں تو مشرف والے بارہ اکتوبر سے اس کو شروع کرتا ہوں۔میاں صاحب اسی ایجنڈے کے تحت باہر گئے اور مشرف برسراقتدار آئے۔سب ڈرامہ تھا،طیارہ ہائی جیکنگ کیس ڈرامہ تھا۔میاں برادران اب عالمی سرمایہ کار ہوگئے ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر کے رکھ رکھاؤ کو فالو کرنا ان کی مجبوری ہے۔گویا سی آئی اے،را،اورموساد کا ٹرائے اینگل ہے جو برسرپیکار ہے۔ہمارے ہاں میڈیا خصوصاً جنگ،جیو گروپ،میاں برادران اور کچھ میڈیا پرسن اس منصوبے پر کام کررہے ہیں۔مقامی لوگوں نے ریڈ لائن کراس کرنے کی سزا دینے کے لیے دھرنے ارینج کیے لیکن اب وہ اُن کے قابو میں نہیں،گویاجن بوتل سے باہر آگیا ہے ‘‘۔ تازہ ترین صورتحال جاننے کے بعد ہم نے کڑیاں ملانے کی کوشش کی تو ہمیں کئی کیس ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے دکھائی دیے۔امن کی آشا،غامدی صاحب کے پروگرام،ملالہ اور اس کے ساتھ ساتھ کئی اور پروگرام نظر آئے،جس میں فری میڈیا اور سول سوسائٹی کا بڑھا ہوا کردار آئے روز کے جلسے جلوس اور توہین رسالت اور اس طرح کے دوسرے کیس بھی خاص تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔اس طرح کے مقدمات کو کس طرح رپورٹ کیا جاتا ہے اور کب فوج،آئی ایس آئی اور دوسرے اداروں پر کیسے کھلے عام اعتراض کیا جاتا ہے،اور تو اوراعلیٰ عدالتوں میں انہیں پیش ہونے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے،میمو گیٹ اس کی ایک مثال ہے۔
عکسی کون ہیں اور ان کے بارے میں آپ کیاجانتے ہیں۔یہ ایک الگ قصہ ہے،ہم کچھ کہانی آ پ کی نذر کرتے ہیں۔ان سے ہونے والی کئی ملاقاتوں کے بعد جو کچھ ہم جان سکے وہ آپ کے رو بروہے۔ برگدکے نیچے برگد نہیں ہوسکتا لیکن یہاں تو ایسا ہوگیا اور برگدبھی ایسا برگد کہ برگدِ اولا بھی فخرسے پھیلتا چلا جائے۔ممتازمفتی اور عکسی مفتی دنوں باپ بیٹا ایک دوسرے کے یار تھے۔یاروں میں ہونے والی گپ شپ اکثر ہم جولیوں کے لیے عجیب تو تھی غریب نہ تھی۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے نصیب میں چھا جانا لکھا ہوتا ہے۔ان کے آتے ہی آپ سہم سے جاتے ہیں یا کھل اُٹھتے ہیں۔ممتاز مفتی محفل کی جان ہوا کرتے تھے اور ان کے گرد نوجوانوں خصوصاًلڑکیوں کا دائرہ دیکھ کر اکثر مرد حضرات جلا کرتے تھے۔میں نے کئی ایک بزرگوں کی جلن کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے۔یہی جادوعکسی مفتی میں بھی ہے۔نوجوان ان کے گرد ہالہ کیے رہتے ہیں۔چاند ہو اور ہالہ نہ ہو،ایسا تو ہو نہیں سکتا۔ممتاز مفتی محفل میں موجود ہر شخص کے محبوب ہوا کرتے تھے۔عکسی کے دائرے میں بھی موجود لوگ خود کومحبوب محسوس کرتے ہیں۔ باپ بیٹے میں یہ جادو کہاں سے آیا تھا، میں آج تک سمجھ نہیں سکا۔ممتاز مفتی کی محفلوں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا اور عکسی سے بھی ایک طرح کی یاری ہے اور میں ہی کیا ہرکوئی خود کو عکسی کا یار کہتا ہے۔دوستی کرنا تو کوئی ان سے سیکھے۔جب احترام آدمیت ہی سب کچھ ہو تو ایسا ہوجایا کرتا ہے۔
عکسی مفتی کہتے ہیں کہ وہ 2002ء میں تھک چکے تھے۔لیکن میرا کہنا ہے کہ وہ اب بھی نوجوانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔عکسی کا کہنا ہے کہ بانو کی بات ان کے دل کو نہ لگی،کیونکہ محسوس یہ ہوتا تھا کہ کوئی کہہ رہا ہے،لکھو،مجھے بھی محسوس ہوتا تھا کہ مجھے لکھنا ہے۔ابّاجو کام چھوڑ گئے تھے،مجھے وہ کام وہیں سے شروع کرنا ہے۔
عکسی مفتی پاکستان میں کلچرکو ڈویلپمنٹ کے ساتھ جوڑ کر پڑھنے اور پڑھانے والے واحد شخص ہیں۔ان کی باتیں آپ کو حصار میں لے لیتی ہیں۔ٹھنڈی میٹھی باتیں، مزے لے،لے کر آپ ان کی باتیں لوگوں کو سناتے ہیں اور پھر بھی ان کی لذت کم نہیں ہوتی۔یہ ازلی و ابدی سچ آپ کو مسحور کیے رکھتا ہے کہ انسان کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے۔آپ ان کی باتوں میں اُلجھ کر کہیں کے نہیں رہتے اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ سے بڑا پارکھ کوئی نہیں،باپ بھی لوگوں کو’’ گمراہ‘‘کیا کرتے تھے، بیٹا بھی یہی کام کرتا ہے۔اس خانوادے کا شروع سے ہی یہی چلن ہے کہ جس سے پیار کرتے ہیں اُسے ماردیتے ہیں۔ ماردینے کی حد تک پیار کرنے والے باپ بیٹے کی کہانی بھی عجیب ہے۔باپ کو اُ س کے باپ نے نظر انداز کیا اور بیٹے نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا اور باپ ساری زندگی ممتاز مفتی کاانتظار کرتا رہا۔ان کی جان لبوں پر تھی لیکن آنکھیں دہلیز پر رکھی تھیں کہ ممتاز آئے اوراُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجائے۔ممتاز اپنے باپ سے بہت پیار کرتے تھے لیکن اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔یہی حال باپ کا تھا۔یہی دُکھ تھا کہ ممتاز مفتی اپنے بیٹے کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔عکسی نوعمری میں گُم ہوگئے تھے، جس کا ممتاز کو اس قدر رنج ہوا کہ وہ پاگل پنے کی حدوں کو چھونے لگے۔ ان دنوں تو وہ انکار کی منزلوں تک پہنچ گئے تھے۔بعد میں توبہ تائب کی اور قدرت اللہ شہاب اُنھیں مناکرواپس دائرہ اسلام میں لائے۔شہاب پیرتھے کہ ممتازاب تک کھل نہیں پایا۔صدیق راعی دونوں میں وچولے کا کردار ادا کرتے تھے۔اِدھر کی بات اُدھر،اُدھر کی بات اِدھر لے کر آتے،یہ سلسلہ قدرت اللہ شہاب کے پردہ کرجانے کے بعد بھی جاری رہا،جس کے بہت سے گواہ ہیں۔انکل نسیم اور میں گھنٹوں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ایک دوسر ے کی آنکھوں سے رویاکرتے تھے۔ شہاب صاحب کی باتیں ہمارا پسندیدہ موضو ع ہوا کرتا۔قدرت اللہ شہاب باپ اوربیٹے کے بیک وقت دوست تھے۔ابن انشا،اشفاق احمد،بانوقدسیہ اور ممتاز مفتی ایک ہی مالا کے موتی تھے اور اس تسبیح کا امام موتی لگتا ہے عکسی مفتی ہے۔
علی پور کا ایلی جن لوگوں نے پڑھ رکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ ممتاز کہاں ہیں اور ان کے والد گرامی کس جگہ پر ہیں۔خود نوشت کو ناول بنادینا بھی ممتاز مفتی کا کمال ہے۔اب تو نہ وہ حویلیاں رہیں او ر نہ حویلیوں میں رہنے والے خاندان رہے ورنہ لوگ جان جاتے کہ جب گھر میں بھنڈیاں پکا کرتی ہیں تو کونے والے کمرے میں رہنے والی بڑی بیگم اور اس کا بیٹا بھنڈیوں کی ڈنڈیاں پکاکر کھاتے ہیں۔حد سے بڑھی ہوئی نفرت آگ کی طرح ہوتی ہے جو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ممتاز مفتی کے ساتھ بھی یہی ہوا پھر اس نے ققنس کی طرح اپنی ہی آگ سے جنم لیا۔عکسی کی ماں ممتاز کا عشق تھیں۔چار پانچ سال کی عمر میں فوت کیا ہوئی اُس نے باپ بیٹے کو اُجاڑ کے رکھ دیا۔ممتازاور عکسی کی کہانی کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا،باپ بیٹا عمروں کی حد پار کرگئے تھے،کبھی عکسی بزرگ ہوجایا کرتے اور کبھی ممتاز بچہ بن جاتے۔عکسی 32سال کی عمرتک پہنچے تو اسی کالج میں نفسیات کے پروفیسر بن گئے جس میں پڑھا کرتے تھے۔گورڈن کالج کو چھوڑنا بھی ایک اور طرح کی کہانی ہے۔ جیسا کے سب جانتے ہیں کہ ممتاز مفتی کے دوست ہی عکسی مفتی کے دوست تھے۔احمد بشیر اور اشفاق احمد خان سے ان کی گہری یاری تھی۔عکسی مفتی کے سٹوڈنٹس انہیں گھر پر ملنے کیا آئے کہ ممتاز مفتی جل گئے اور اس کا قصہ جب مسعود قریشی کو سنا رہے تھے تو عکسی بھی گھر پہنچ گئے۔کالج میں ان کا جو توالگا تھا، اُس کا راز کھل گیا کہ والدِ گرامی نے ہی فرمایا تھا ہلکی،ہلکی پھوار پڑرہی ہے،موسم خوشگوار ہے ایسے میں ایک نوجوان کیسے گھر رہ سکتا ہے۔ممتاز مفتی برداشت ہی نہ کرسکے کہ ان کے اچھے کو،کوئی عکسی مفتی کہے اور طرفہ یہ کہ طالب علموں نے کہہ دیا کہ وہ عکسی جن کے ابّاممتاز مفتی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ عکسی مفتی سب کچھ چھوڑ چھاڑکر چیکوسلواکیہ چلے گئے، یہ الگ بات ہے کہ وہ یہاں سے جاتے جاتے بہت کچھ پیچھے چھوڑ گئے تھے۔لوک ورثہ کی رنگا رنگی،طبلے کی دَھا،دِھن،مصوری کی قوس قزح، فوٹو گرافی کی جمالیات اور جمالیات کی خوشبویہی تو عکسی تھا جو ہمیں رہ رہ کر یاد آتا۔اچھے کوجب طالب علموں نے عکسی مفتی کہا تو ممتاز مفتی کو اپنی ملکیت چھنتی ہوئی دکھائی دی اور جب عکسی نے یہ ماجرا سنا تو ان کی فطری انا نے انہیں بغاوت پر اکسایا اور وہ بول اُٹھے،ہمارا حوصلہ دیکھیں کہ ہم تین دہائیوں سے سنتے آرہے ہیں کہ ممتا ز مفتی کا بیٹا،ان سے ایک دن سنا نہیں گیا کہ عکسی مفتی کے باپ،اب اس وقت ہی گھر لوٹوں گا جب کچھ بن جاؤں گا اور اپنی پہچان بنا کر ہی گھر لوٹوں گا۔باپ بیٹا دنوں اپنی ہٹ کے پکے ہیں اور انہوں نے جو سوچا وہ کرکے دکھایا۔منحنی سے ممتاز مفتی نے بڑے بڑے قدآوروں کو نیچے بیٹھنے پر مجبور کر دیا اور آج عکسی مفتی کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا،بولنے پرآئیں تو کوئی اُن کے سامنے بول نہیں سکتا، لکھنے پر آئیں تو لوگ ان کے لکھے میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ ان پرعکسی کی لکھت طاری ہوجاتی ہے۔ تلاش،اللہ :ماورا کا تعین بھی اسی طرح کی کتاب ہے جو آپ پر طاری ہوجاتی ہے۔جب یہ کتاب انہوں نے مجھے پیش کی اور انہوں نے میرے لیے جو لکھا وہ میر اثاثہ ہے۔آج بھی کتاب کا پہلا صفحہ دیکھتا ہوں تو سینہ چوڑا ہوجاتا ہے۔اس کتاب کا شہرہ تو بہت سنا تھا لیکن جب اس کے ساتھ وقت گزارا تو وقت تھم سا گیا۔انہوں نے لکھا مہربان دوست احمد لطیف کے لیے، لگتا ہے انہوں نے مجھ پر بہت مہربانی کی،یہی حال میرا اس وقت تھا۔ جب انہوں نے ڈاک کے ذریعے،کاغذ کا گھوڑا بھجوائی،اب میں کئی بار اس گھوڑے پر سواری کر چکا ہوں، ہر بار یہ گھوڑا مجھے نیچے گرا دیتا ہے۔سرخ فیتے کی کار گزاری اور آڈٹ کے اعتراضات کے نام پر جو کچھ افسر شاہی کرتی ہے،کاغذ کا گھوڑا اس کی گرہ کشائی کرنے والی کتاب ہے۔کہانیاں تو بہت سی ہیں جو ان سے ملنے کے بعد ہر بار مجھ پر وا ہوئیں اور میں ان کے ساتھ کئی کئی دن کھیلا کیا، لگتا ہے قدر ت اللہ شہاب ممتاز مفتی کے مرشد تھے اور ممتاز مفتی نے قدرت اللہ کے ساتھ مل کر بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا اور عکسی مفتی سب کچھ پھلاندکر قدرت اللہ شہاب کے خلفیہ خاص بن گئے۔مجھے تو محسو س ہوتا ہے کہ میں بھی کہیں خواب ہی خواب میں عکسی کے ہاتھ پر بیعت ہوگیا ہوں۔
ان کاکہنا ہے کہ ابا کے ہوتے ہوئے میری جرأ ت نہ ہوتی تھی کہ میں اُردو میں لکھوں، جب بھی لکھنے کی کوشش کرتا توکوئی آکے میرا ہاتھ پکڑ لیتا، اب وہ نہیں رہے تومحسوس ہوتا ہے کوئی مجھ سے لکھواتا ہے۔عکسی کی باتیں بہت پرُ اسرار ہوتی ہیں اور مجھے ان میں پوشیدہ راز بہت کچھ بتاتے ہیں، میری ان سے دوسری یا تیسر ی ملاقا ت تھی کہ میں نے ان نے پوچھا،آپ کی تلاش ممتا ز مفتی کی تلاش سے مختلف ہے یا آپ نے اُس تلاش کو آگے بڑھایا ہے، اس سوال پر ان کی آنکھوں میں چمک آگئی اور سلیقے سے سجائے ڈرائنگ روم کی ہر شے ان کا ساتھ دینے لگی۔گھر میں ہر طرف رکھے نوادرات اور دستکاری کے نمونے،مکینوں کی آثار قدیمہ اور فنون لطیفہ سے محبت کا مظہرہیں، یوں تو ان کی گلی میں آتے ہی کانسی کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔دروازے پر دستک دیں تو وہاں لٹکنے والے ٹل سے احساس ہوتا ہے کہ یہ ان بھینسوں کے گلے میں لٹک رہی ہوں گی جو کبھی ان کے گھر کے ساتھ بہنے والے شفاف پانیوں سے ہوتی ہوئی مارگلہ کی پہاڑیوں پر چڑھ گئی ہونگی۔مارگلہ سے بری امام ؒ کارشتہ اور وہاں پر ساکت ہوجانے والے سانڈکی کہانی مجھے احمد حسن دانی نے سنائی تھی۔اُن کا کہنا تھا کہ یہ اس خطے کے سنگ تراشوں کی کار گزاری ہے،لیکن روح میں کہیں یہ بات ٹھہر گئی ہے کہ خطہ پوٹھوہار کے اس ولی کامل نے ضرور دودھ مانگاہوگا اور جلال میں آکر سانڈ کو پہاڑ پر دے مارا۔دودھ دینے کا اعجاز تھا کہ یہ سانڈ بھی مرجع خلائق بن گیا۔بات صوفیوں کی ہورہی ہے اور اس دور کے صوفی سے باتیں کرکے ہم بھی حلول اور وحدت الوجودکے فلسفے سے گزررہے ہیں۔بیج سے بیج تک کے سفر کی کہانی سچ محسوس ہوتی ہے۔
عکسی مفتی کیاکیا کرتے ہیںیہ تو ہم بعد میں بتائیں گے،گھرکی کہانی جو انہوں نے سنائی وہ آپ بھی سن لیں۔یہ کہانی بھی بہت دلچسپ ہے اور اس گھر کے بن جانے کی کہانی بھی ممتاز مفتی کی کہانیوں جیسی من مو ہنی ہے۔مفتی صاحب کو دل کا دورہ پڑا اور وہ ہولی فیملی اسپتال میں داخل کرادیے گئے۔وہاں پر اُن کی تیمارداری کرنے کے لیے سی ڈی اے کے ایک اعلیٰ افسرتجمل صاحب آئے، ان سے کچھ دیر پہلے مفتی صاحب کو ان کی بیوی نے کہا تھا،آپ مرگئے تو میں اپنی تین بیٹیوں کو لے کر کہاں جاؤں گی،مفتی صاحب بہت ڈرے،بیوی نے یہ بھی کہا تھا، ہمارے پاس تو سر چھپانے کے لیے جگہ بھی نہیں، آپ پہلے او ایس ڈی بنے رہے اور اب آپ کو معمولی سی پنشن مل رہی ہے،ریڈیو پر کچھ لکھتے ہیں تو گھر چلتا ہے، میرا کیا بنے گا، گھر تو بنا دو، مفتی صاحب نے یہ سار ا ماجرا،اپنے دوست تجمل کو سنا دیا۔دوسرے دن تجمل صاحب نے ایک چٹ بھجوائی جس پر لکھا تھا، آپ کو ایف سیون میں ڈبل پلاٹ دے دیا گیا ہے،آپ پانچ ہزار روپے قسطوں میں جمع کرادیں،یہ چٹ آئی تو سب کے ہاتھ پیر پھول گئے۔اِدھر اُدھر سے جمع کرکے ایک قسط ادا کردی گئی،باقی کے پیسے نہ تھے، پھر نوٹس آنے لگے، اِدھر اُدھر سے پیسے جمع کرکے دوسری قسط بھی دے دی گئی،ایک دن زوجہ کو خیال آیا، مفتی صاحب سے کہا،کہاں ملا ہے پلاٹ، ذرا ہمیں بھی تو دکھائیں،مفتی صاحب انہیں اپنے شہرہ آفاق اسکوٹر پر بٹھا کر لے گئے تو بیگم نے سر پیٹ لیا، یہ پلاٹ ملا ہے، یہ تو جنگل ہے، میں ایف سکس میں پلاٹ لوں گی،اب کیا کیا جائے، ابّاپھر اپنے دوست کے پاس گئے،میری بیوی ناراض ہے،اسے تو ایف سکس میں پلاٹ چاہیے،تجمل صاحب نے لاکھ سمجھایا، دوکنال کا پلاٹ ہے، یہ بہت اچھی جگہ پر ہے، آپ کا اچھی طرح سے گزارا ہوجائے گا، لیکن انہوں نے مان کر نہیں دیا،حقیقت حال یہ تھی کہ ایف سکس میں کوئی پلاٹ باقی نہیں بچا تھا، نالے کے پاس کچھ جگہ تھی جو انہوں نے پسند کرلی اور وہ انہیں دے دی گئی،بارشوں میں پانی گھر میں آجاتا،عکسی بتا رہے تھے،سوتیلی ماں کی ضد پر ہم نے یہ پلاٹ لے تو لیا، برسوں تک اس پر مکان بنانے کے لیے پیسے جمع نہ ہوسکے،پھر شہاب صاحب کے بہنوئی،محمد امین نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن والوں سے قرضہ لے کر یہ مکان بنوا دیا، عکسی نے بتایاکہ باقی کا حصہ میں نے بنوا یاہے۔
باتیں بنانا تو کوئی ان سے سیکھے،غالباً یہ لہوکا اثر ہے، ممتا ز مفتی بھی اسی طرح کی لچھے دار باتیں کیا کرتے تھے۔دنیا جہان کے موضوعات کو وہ اپنی گفتگو میں سمیٹ لیاکرتے۔کتاب کے بارے میں بھی جب عکسی مفتی نے سوچا تو بانو قدسیہ اُن کے سامنے آکھڑی ہوئیں اور کہا،کتا ب لکھنا فضول کام ہے۔ان کے درست لفظ یہ تھے، کتاب لکھناڈیڈ ورک ہے، کوئی عملی کام کرو، ابھی تم میں انرجی ہے۔عکسی مفتی کہتے ہیں کہ وہ 2002ء میں تھک چکے تھے۔لیکن میرا کہنا ہے کہ وہ اب بھی نوجوانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔عکسی کا کہنا ہے کہ بانو کی بات ان کے دل کو نہ لگی،کیونکہ محسوس یہ ہوتا تھا کہ کوئی کہہ رہا ہے،لکھو،مجھے بھی محسوس ہوتا تھا کہ مجھے لکھنا ہے۔ابّاجو کام چھوڑ گئے تھے،مجھے وہ کام وہیں سے شروع کرنا ہے۔گویا مجھے چن لیا گیا ہے۔عکسی بتا رہے تھے کہ میں نے تلاش پر کام بہت پہلے شروع کردیا تھا،جب یحیےٰ خان نے شہاب صاحب کی پنشن بند کردی تو وہ سپرمارکیٹ کے سامنے دس نمبر گلی میں سرکاری کوارٹروں میں رہنے لگے، یہ گھر ان کی بہن کو ملا تھا،باہر برآمدے میں پڑے رہتے، جو ملتا کھا لیتے، مجھے کہا کرتے،یار عکسی مجھے کاپیاں لا دو،میں نے شہاب نامہ لکھنا ہے۔فرمائش کرکے لنگی منگواتے، اس کی قمیض بنواتے، معمولی سے سلیپر ٹائپ جوتے پہنا کرتے، لنگی کی قمیض اور نیچے دھوتی اُن کا من پسند پہناوا تھا، اُ ن کا کرّوفر ختم ہوگیا تھا۔وہ ان دنوں یونیسکو کے بورڈ میں تھے اور ذاتی حیثیت سے باہر جایا کرتے،ان دنوں نسیم بیگ سے ان کی ملاقات ہوئی اور وہ انہیں اپنے فلیٹ میں پیرس لے جایا کرتے۔ان دنوں کی ممنونیت کے باعث وہ پاکستا ن واپس آکر انہیں اپنے پاس بلا لیا کرتے یا کبھی ان کے پاس چلے جاتے۔عکسی بتا رہے تھے کہ میں نے ان سے اس آمد ورفت کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا میں ان کا احسان مند ہو، جب سارے لوگ مجھے چھوڑ گئے تھے،تب اس نے میرا ساتھ دیا تھا۔بات تصوف کی طرف نکل گئی تو میں نے پوچھ لیا،یہ ولایت کا سلسلہ کیا ہے اور لگتا ہے کہ آپ بھی شہاب صاحب کے خلفیہ رشید ہیں،اس پر وہ مسکرائے اور کچھ کہے بغیر آنکھوں میں ایک خاص رنگ بھر کر مجھے دیکھنے لگے،یعنی بات سنی ان سنی کرگئے اورکہا،میری کتاب کی تقریب میں دورِ حاضر کے تین زندہ ولی آئے تھے۔ مثلاً؟مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بول اُٹھا،اس پر انہوں نے کہا، پروفیسر احمد رفیق اختر، بابا محمد یحیےٰ،سرفراز شاہ،پھر کہنے لگے،اس عہد کے ایک اور زندہ ولی بھی ہیں،کون ؟میں پھر بولا تو انہوں نے کہا،جہلم کے زبیر صاحب، یہ بات ہوچکی تو مجھ پر کھلا کہ میں اس عہد کے پانچویں دوریش سے مکالمہ کررہا ہوں اور مجھے ممتاز مفتی کے آخری دن یاد آنے لگے،ان دنوں ممتاز مفتی بھی صوفی ہوگئے تھے،خصوصاًجب وہ صدیق راعی سے مخاطب ہوا کرتے اور کہتے، بابے سے پوچھ کر بتا کہ پاکستان کی قسمت کب جاگے گی،عکسی مفتی بھی ان دنوں اُسی طرح کی معنی خیز گفتگو کررہے ہیں۔داداکا قصہ بھی انہوں نے سنایا،میرے دادا کی وفات کے وقت عمر98بر س تھی، ابّا کو دیکھتے ہی وہ کھل اُٹھے، گویا ان کے آنے سے اُن کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیاہو، یہی وجہ تھی کہ وہ آنکھیں بند کیے ابّا کی چاپ پر بول اُٹھے، ممتاز آگیاایں،اور اس کے ساتھ ہی ان کی روح پرواز کرگئی۔ کرشن نگر لاہور والی حویلی میں وہ وارفتہ ملاقات آج بھی عکسی کو حیران کردیتی ہے اور وہ ہر ملنے والے کو ضرور سناتے ہیں۔عکسی کا کہنا تھا کہ دادا کو احساس ہوگیا تھا کہ میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔
اساطیری شخصیت کے حامل عکسی مفتی کی کس کس بات کا تذکرہ کیا جائے یوں تو عکسی نے بہت سے کام کیے،پروفیسر رہے،ٹیلی ویژن کے ابتدائی دنوں میں لوک تماشا نامی پروگرام کیا، طبلہ بجایا،فوٹو گرافی کرتے رہے،ریکارڈنگ کی، انہوں نے لوک ورثہ کو ایک سائنس بنادیا اور اسے پاکستان میں عروج تک لے کرگئے۔لوک ورثہ کے زیراہتمام لاتعداد کتابیں شایع کیں۔تحقیق کرائی، لوک داستانیں جمع کیں، بولیاں، قصے، کہانیاں،لوک فنکارمتعارف کرائے،کس کس کا ذکر کروں، گویا کوئی ایسا کام رہا نہیں جوانہوں نے کیا نہ ہو۔عشق تو وہ آج بھی کرلیتے ہیں۔پارہ صفت ایسے کہ ذرا سی بات پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان سے دور چلے گئے۔ثقافت کو روح کی طرح سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جسم کو بیماری لگ جائے تو ہم مارے مارے پھرتے ہیں اور ماہرڈاکٹر تک رسائی حاصل کرتے ہیں،لیکن ان دنوں ہماری روح کو روگ لگ گیا ہے اور اُس کے لیے ہم کچھ نہیں کررہے۔عکسی مفتی کیاہیں،وہ تو آپ جان چکے۔اب ہم کچھ سیاسیات اور حالات حاضرہ پر بھی کہہ سن لیتے ہیں۔ایک بات تو بھول ہی گیا کہ انہیں 2006ء میں ایشیاء پرائزفار کلچربھی ملا تھا جو پاکستان میں اس سے پہلے نصرت فتح علی خان کو ملا تھا،بھارت کے پاس تو اس طرح کے کئی انعامات ہیں۔ستارہ امتیاز بھی انہیں مل چکا ہے۔ورثہ میوزم کے بھی وہ بانی ہیں اور لوک ورثہ بھی ان کی محنتوں کا ثمر ہے۔بیٹے کا باپ سے عشق خال،خال دیکھا گیا ہے،کسی کتاب کی انتسابی سطریں مصنف کی سوچ اور فکر کو عیاں کرتی ہیں۔تلاش کا انتساب دل کو چھو لیتا ہے۔
ابا کے نام !
ممتاز مفتی، جو باپ بھی تھے اور دوست بھی!
میں نے تمھیں پہچان لیا ہے !
تم ہی میری ماں ہو
تم ہی میرے باپ ہو
ایک بن آئے ہو
مجھے سمجھانے کے لیے
تمھارے پیار نے مجھے سب کچھ دیا ہے
سمجھایا ہے
جو کچھ بھی مجھے ملا ہے
تم ہی نے دیا ہے
جو کچھ بھی مجھے ملتا ہے
تم ہی دیتے ہو !
جورنج میں نے تمھیں دیے ہیں
مجھے معاف کردینا
جو تکلیف میرے ہاتھوں تمھیں پہنچی ہے
مجھے معاف کردینا
بس میراشکر قبول کرلینا،
یہی ہے میرے پاس دینے کے لیے !
تھنک یو ابّا !
تھینک یو !
یہ صفحہ پڑھنے کے بعد میری آنکھیں بھیگ چکی ہیں اور میں حالات حاضرہ کی باتیں کرنے کے لیے خود کو جمع کر رہا ہوں۔عکسی کو دیکھتے ہوئے مجھے جاپانیوں کی بون سائی تکنیک بہت یاد آتی ہے اور برگد کے نیچے برگد کا قصہ بھی سچ دکھائی دیتا ہے۔طفیلی جڑیں تو سامنے کی بات ہے،لیکن مکان نمبر 22گلی نمبر 32ایف سکس ون جائیں تو اس کے ساتھ ایک نالہ دکھائی دیتا ہے۔ پلاٹ کا قصہ تو میں نے سنادیا، ایک پلاٹ کی واپسی اور دوسرے کی الاٹ منٹ بھی آپ کی نذر کر چکا،جب کبھی عکسی مفتی کے گھر جائیں تو بنگالی کے گرما گرم سموسے بھی ضروری ہوجایا کرتے ہیں اور پھر ایف سکس ون میں موجودنیشنل پریس کلب کی چائے کا لطف دوبالا ہوجاتاہے، جب کبھی عکسی کے گھر گیا،کبھی آتے ہوئے اور کبھی جاتے ہوئے سموسوں نے ضرورروک لیا، آپ بھی جب عکسی کے ہاں جائیں تو یہ سنت ضرور ادا کیجئے گا۔عکسی کا ڈرائنگ روم تو مجھے کبھی بھولتا نہیں، نیلم کا حقہ، چھوٹے بڑے ٹل، جوگی جس کے مال مویشی مارگلہ جانے کا ارادہ کربیٹھے تھے یہ ٹل ان کی یادگار دکھائی دیتے ہیں، جس طر ح ’’جن ‘‘ اپنی نشانی چھوڑ جایا کرتے ہیں، چرواہا اور مویشی اپنی نشانی ٹل کی صورت یہاں چھوڑ گئے ہیں۔ عکسی نے انہیں کال بیل کے طور پر سجا لیا ہے۔
سوال:۔ہم کہاں سے شروع ہوتے ہیں،یہ سوال اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ پاکستان میں واحد فوک لورسٹ اور کلچرسٹ ہیں،لوگ بہت سی باتیں بناتے ہیں لیکن آپ کے نزدیک ہم لوگ جوپاکستانی ہیں،کہاں سے شروع ہوتے ہیں، ہزاروں برس پہلے کے دراوڑوں سے یا محمد بن قاسم کی آمد سے ؟
جواب:۔ہمارا مذہب بول چال کا مذہب ہے بلکہ تمام مذاہب زبانی روایت سے جڑے ہوئے ہیں،جس طرح کا سیاسی گٹھ جوڑ اب ہے ایسے میں اگر علامہ اقبال ؒ جیسا عالم بھی یہاں آجائے تو فیل ہوجائے،بابا ئے قوم تو سو فیصد بے بس ہوجائیں، اتنے سچے اور کھرے لوگ بھی ہم نے ملکی سیاست سے نکال باہر کیے، اب فقط ان کا تذکرہ رہ گیا ہے،پاور پالیٹکس کا خمیر ہی ایسا ہے کہ وہ جدل پر بیس کرتی ہے،آج ہم اس طرح کا سوال کرکے خود کو احمق ثابت کرتے ہیںیایوں کہہ لیں کہ دقیا نوسی ہیں۔ محمد بن قاسم پہلا پاکستانی،یہ نظریہ انتہائی مضحکہ خیز ہے،محمد بن قاسم اسلام پھیلانے نہیں آئے تھے، وہ تو اپنے بحری بیٹرے چھڑانے کے لیے آئے تھے اور بحری قذاقوں کو سبق سکھانا چاہتے تھے، دیبل ان دنوں معروف بندر گاہ تھی اوراس پر ان کے تجارتی جہاز لنگر انداز ہوا کرتے تھے،راجہ داہر وغیرہ انہیں لوٹ لیا کرتے تھے،محمد بن قاسم کی یہی خواہش تھی کہ وہ پورٹ ٹاؤن پر قبضہ کرلیں تاکہ تجارت آزادی کے ساتھ ہوتی رہے، آج بھی ساحلی شہروں پر قبضے اور ان شہروں میں اثر ورسوخ کی جنگ جاری ہے،آج کی عالمی طاقیتں یہی تو کررہی ہیں،بلوچستان میں اور کیا ہورہا ہے اور کراچی کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ محمد بن قاسم نے دی ہوئی اسائنمنٹ مکمل کی تھی اور فتح کیے ہوئے علاقے مقامی راجاؤں کو بخش کر اپنے اقتدار کو مستحکم کیا تھا۔انڈس ویلی کی کہانی بھی اس طرح نہیں ہے جس طرح بتائی جاتی ہے، ویدوں کے بغیر یہاں کی کوئی بات آگے نہیں بڑھ سکتی، یہی اس خطے کی ثقافت ہے۔سنٹرل ایشیاسے آریہ آئے اور مقامی امن پسند دراوڑوں سے مل کر رہنے لگے، یہ ایک حسین امتزاج تھا۔آریہ جنگ جو اور مقامی اقوام امن پسند اورشہری شعورسے بہرہ مند تھیں،قبائلی خانہ بدوشی،زرعی معیشت اور اس کے تال میل سے یہاں نئی تہذیب جنم لے رہی تھی۔اس سارے عمل میں تخلیقی سوچ نے بنیادی کردار ادا کیا، صرف تلوار، دھول اُڑاتے اور سموں سے آگ نکا لتے گھوڑوں کے ذریعے اقتدار کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتاتھا۔وید آریہ اپنے ساتھ لائے تھے اور مقامی لوگ بھی تہذیب کے کچھ لوازمات اپنے ساتھ رکھتے تھے۔وید گائے جانے لگے اور ایک مذہبی طبقہ پیدا ہوگیا، ان لوگوں نے اپنے اثر ورسوخ کو بڑھاوا دینے کے لیے طرح طرح کی رسومات ایجاد کرلیں، گاؤ ماتا، شراپ اور اسی طرح کے اور قصے، مقامی معاشرت میں در آئے۔یادرہے مقامی لوگ گوشت خور تھے،اُن کے ہاں طبقات نہیں تھے۔یہاں جو بھی کھدائیاں ہوئیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں رہنے والے لوگ برابری کی سطح پر زندگی گزارتے تھے۔ سب مساوات پر یقین رکھتے تھے،کہیں آپ کوشہزادے کا گھر نہیں ملے گا، ایک جیسے گھر اور ایک جیسا کھانا پینا۔ برہمن ذات پات پر یقین رکھتے تھے اور ماس مچھی سے پرہیز کرتے تھے، اس لیے یہاں سے ہجرت کرگئے اور گنگا جمنا کے کنارے جا آباد ہوئے۔دوہزار پانچ سوسال کی یہ تاریخ،قبضہ گیری کی تاریخ ہے،مذہبی لوگوں کو بنیادی اہمیت حاصل رہی،نئی نئی رسمیں ایجاد ہوئیں، دھندے کے نئے نئے طریقے بنائے گئے اور نذرانے لینے کا سلسلہ شروع ہوا،اندرا، براہما،شیو،مورتیاں۔ویدوں کی شہر ت ہوئی تو اس میں تعظیم اور تقدس بھی در آیا،چھے فیصد لوگ راج دربار سے وابستہ تھے،باقی سارا نظام قبائلی طرز کا تھا،گلوبلائزیشن کی جو بات کی جارہی ہے وہ ایک نیا انداز ہے، اب دنیا ہمارے کنٹرو ل میں نہیں،اب دیواریں اُٹھائی نہیں جاسکتیں، گودیواریں بنانا چین والوں کی روایت ہے اور اس سوچ کو انہوں نے اس دور تک بھی جاری رکھا اور باہر سے کسی کو ثقافتی اور مالیاتی سطح پر اندر نہیں آنے دیا،لیکن یہ پچھلی صدی کی بات ہے۔و ہ زمانہ اور تھا، جب بھی کوئی آتا ہے سرمایہ کاری کے ساتھ آلودگی بھی ساتھ لاتا ہے، ایران نے بھی ایک نہ دکھائی دینے والی دیوار بنالی ہے، لیکن سائبر ایکسپریس وے کے زمانے میں آپ کچھ بھی نہیں روک سکتے،ایران ایک قدم آگے، ایک قدم پیچھے رکھتا ہے، امریکہ اپنے طور پر ڈرا ہوا ہے،ہم جیسے ملکوں میں بینک بنے، فوڈچینزنے اپنا جال بچھایا،سود در سود کا چکر ایسا چلا کہ ہم سب چکرا کر رہ گئے۔آپ نے کسی کو روکا نہیں اور وہ بھی گھستے چلے آئے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کا اپنا پن اب کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔
سوال :۔اس عذاب سے کیسے نکلا جائے اور جو کچھ ہم میں سرایت کر چکا ہے اس کو کیسے نکالا جائے ؟
جواب :۔مقامی ثقافت کو فروغ دیں، خاندانی اقدار کونئے سرے سے استوار کریں، کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔جب آپ کی ثقافت طاقت ور ہوگی تو کوئی کیا کرے گا۔بیڈ فورڈ ٹرک نے کیا کیا، مقامی ٹرک آرٹ نے اُس کو اپنا رنگ دے دیا۔ ہمارے سیاستدانوں سے زیادہ زیرک تو ہمارے ٹرک ڈرائیور اور سپرے پینٹر ہیں کہ انہوں نے مغرب سے آئی چیزوں کو اپنے رنگ میں رنگ لیا، انجن کہاں کا، باڈی کہاں کی،ٹائر کہاں کے،سب کچھ لوکلائز کرلیا۔ثقافت بہت بڑا ہتھیار ہے،دنیاکو اپنی طر ف متوجہ کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ،میری ایک دوست یہاں آئی، اُس نے سٹرک پر ٹرک دیکھا توٹرک پرچڑھنے کے لیے بچوں کی طرح دوڑپڑی، ہمارے فنکاروں نے اُسے بے بس کردیاتھا،وہ ٹرک پر بیٹھ کر اپنی تصویر بنوانے کے لیے بے چین ہورہی تھی،اس کو ثقافت کی پاور کہتے ہیں۔بد قسمتی سے ہم اسے بھلائے ہوئے ہیں۔تخلیقیت ہی بنیادی مسئلہ ہے، آپ نقال بن گئے ہیں،تخلیقی جوہر کہیں گُم ہوگیا ہے،اُس کو واپس لاناہوگا،آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔سیاست اور ثقافت کے اپنے اپنے انداز ہیں اور اپنے اپنے طور طریقے۔سیاست مار دھاڑ ہے اور ثقافت، محبت،ایثار اور قربانی۔برصغیر میں رہنے والے دو بڑے گروہ پوری طرح مختلف ہیں، ان کے رہن سہن کا انداز مختلف ہے،اسی لیے ہم الگ ہوئے۔ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں اور ہم اُسے کھاتے ہیں۔نیشنل ازم کا فروغ بھی ایک مسئلہ ہے،اس کے لیے سائنسی انداز نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ جونہی آپ کسی زبان اور ثقافت کو بڑھاوا دینے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری ثقافت بغاوت کردیتی ہے۔ یہ معاملہ بہت حساس ہے،ثقافت لہو میں سرایت کی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے نہ تو نکالا جاسکتا ہے اور نہ ختم کیا جاسکتا ہے۔ گویا ثقافت روح کی طرح ہوتی ہے۔اسی لیے میں اسے اہمیت دیتا ہوں اور حساس بھی سمجھتا ہوں۔ ثقافت کو کیسے فروغ دیا جائے اور نظر انداز کیے جانے کے دکھ نے جو کچوکے لوگوں کو لگائے ہیں اُن پر مرہم کیسے رکھا جائے، یہ ایک بڑا سوال ہے، اس حوالے سے میری سوچی سمجھی رائے ہے۔ جس طرح کسی بیماری کا ماہر مختلف قسم کے ٹیسٹ لے کربیماری کی تشخیص کرتا ہے۔ اُسی طرح روحانی اور ثقافتی معالج بھی اپنے انداز سے ٹیسٹ لے کر بیماری کی شدت کا اندازہ لگاتا ہے۔ یعنی کوئی قوم اورفرد، کس قدر بیمار ہے۔ میں دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن میں نے جو پڑھ رکھاہے اور جس میں ساری زندگی کھپا دی ہے، اُس کے باعث مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں روحانی اور ثقافتی تشخیص کروں اور اس کا علاج بھی میرے پاس ہے۔ ریڈیو،ٹیلی ویژن اور تمام اخبارات وجرائدکو پابند بنایا جائے کہ وہ 60فی صد مواد مقامی زبانوں میں دیں گے۔ یہ مواد پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں دیا جائے گا۔ صرف خبریں اور میگزین شو نہیں بلکہ تمام دوسرے سیگمنٹ بھی اسی فلسفے کے مطابق ہوں گے۔ثقافت دو جمع دو نہیں ہوتی،یہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے، ثقافت ایسا ہتھیا ر ہے جس سے نیشنل ازم کو بڑھاوا دیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ تلوار اُلٹے رخ چل پڑی تو ہم صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ پہلے بھی ہم نے ایک زبان اور ثقافت کو بڑھاوا دیتے ہوئے دوسری ثقافتوں کو نظر انداز کیاتھا اور اس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا، ملک دو لخت ہوا، سندھ میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے اور اب بھی یہ چنگاری پورے ملک میں دبی ہوئی ہے۔ سندھ ہی نہیں،بلوچستان اور پنجاب کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا میں بھی یہ فتنہ موجود ہے۔ اس کو انتہائی احتیاط سے ختم کرنا ہو گا۔ احتیاط نہ برتی گئی تو خدا نہ کرے پھر کوئی 71ہو سکتا ہے۔پنجاب ہتھیا ر کے طور پر اُردو کو قومی زبان کہتا ہے۔ انگریزی کو بھی بڑھاوا پنجاب نے ہی دیاہے اور اس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے کے باعث نوجوان اس قدر مرعوب ہوئے ہیں کہ وہ مریضانہ حد تک اس کو اپنے اعصاب پر سوار کیے ہوئے ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے نوجوانوں کی بڑی تعدادانگریزی میں فیل ہو جاتی ہے اور جو لوگ تعلیم خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ کچھ بھی کر کے اپنے بچوں کو بدیشی تعلیم دلاتے ہیں تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔اس سے طبقات کے درمیان فاصلہ تو بڑھتا ہے، ایک طرح کا احساس کم تری بھی در آتا ہے، جس سے جسد ملی نہ صرف زخمی ہوتا ہے بلکہ جگہ جگہ سے تڑخ بھی گیا ہے۔میرا موقف یہ ہے کہ جنگی بنیادوں پر اس حوالے سے کام کیا جائے۔ تعلیمی اور ثقافتی پالیسی دی جائے اور اس کی مانیٹرنگ کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔ آپ جو میگا پراجیکٹ شروع کروا رہے ہیں وہ مریض نسلوں کے حوالے کریں گے تو وہ ان کا کیا حشرکریں گے، تشریح طلب نہیں۔ ایک فوک لورسٹ اور کلچرسٹ ہونے کے ناتے میرا مشورہ یہ ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر،اُردو کو قومی رابطے کی زبان اور انگریزی کو عالمی رابطے کی زبان قرار دے دیا جائے،تمام مقامی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے سے پاکستانیت اُجاگر ہوگی۔ اگر ممکن ہو تو جلد ازجلد ثقافتی اور لسانی بنیادوں پر نئی صوبہ بندی کی جائے۔ اب ڈرنے اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں، ہم نے جتنے جھوٹ بولنا تھے بول لیے، قوم سے جو کچھ چھپانا تھا چھپا لیا۔ میرے دوست،یہ 2014ء ہے اوروہ بھی آدھا گزر چکا ہے۔میں کہتا ہوں کب ہمیں خیال آئے گا اور ہم ذاتی کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں گے۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ سیاسی چکر بازیوں اور نورا کُشتیوں کا زمانہ لد چکا۔ قومی زبانوں میں تعلیم ابتدائی کلاسوں سے شروع کردی جائے، ثقافت نصاب کا بنیادی نقطہ ہونا چاہیے۔ میں نے جب میوزیم بنانا شروع کیا تو میں نے اتنا کچھ جمع کیا کہ میں حیران ہوگیا کہ ہمارے ہاں اس قدر ورائٹی ہے۔ ایک ہی علاقے سے جوتوں کے اتنے اسٹائل اکٹھے ہوگئے کہ میں انہیں جمع کرتے کرتے تھک گیا،پتا چلا کہ جوتوں سے قبیلوں کی شناخت ہوتی ہے۔ میں جنوبی پنجاب کی بات کر رہا ہوں،بلوچستان میں تو یہ امتیاز اور بھی زیادہ دکھائی دیتا ہے، وہاں پگڑی اور لباس بھی آپ کو نئی شناخت عطا کرتے ہیں۔ 36گز گھیرکی شلوار اور قمیضوں پر سلیقے سے لگائے ٹِچ بٹن کیا بہار دکھاتے ہیں۔اس حوالے سے میں بطورخاص تخلیقی جوہر کا ذکر کروں گا۔ آخری بات یہ ہے کہ ثقافت ناچ گانے کا نام نہیں، ثقافت قوموں کی روح ہے۔ آپ روح کو نکا ل دیں گے تو قوم مر دہ جسم کی طرح ہوجائے گی۔صارف سماج کو سامنے رکھتے ہوئے بھی اس حوالے سے کئی منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ ادبی اور ثقافتی میلے منعقد کرائیں۔ مقامی فلموں کو عالمی طور پیش کریں۔فیشن شوزکا اہتمام کیاجائے،غرض اس حوالے سے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔جب میں نے طبلہ سیکھا تو لوگوں نے باتیں بنانا شروع کردیں، ہم فنکار کو مراثی کہتے ہیں۔جو قوم فنکاروں کی عزت نہیں کرتی،وہ کیا ترقی کر ے گی۔ ساز مرگئے ہیں، سارنگی نواز کوئی نہیں رہا۔ پکھاوج اورو چتروینا کہاں گم ہوگئی۔ سرود اور تان پورا بھی اب خال خال دکھائی دیتاہے۔ دل جلانے والی باتوں کے باوجود عوامی فنون کو اہمیت دی جانی چاہیے۔
مکالمہ ختم ہوا تو میں نے اٹھتے اٹھتے شرارتاً پوچھ لیا،حامد میر پر حملہ کس نے کیا تھا ؟اس پر وہ گویا ہوئے،یہ تو آپ کا علاقہ ہے،آپ اس کا جواب دیں، ویسے تو کہنے والے کہتے ہیں کہ جنگ اور جیو نے پہلے بھی کئی بار ریڈ لائن کراس کی تھی،حامد میر تو اسامہ کا پرانا پرموٹرہے، یاد آیا آپ بھی تو اسامہ کے ترجمان اخبار ’’اوصاف ‘‘میں حامد میر کے ساتھ مل کر جہاد فروشی کیا کرتے تھے اورجب اسامہ کا ورلڈ ایکسکلوسو قسم کا انٹر ویو شایع ہواتھا توآپ بھی حامد میر کے ساتھ تھے،اسامہ کے سلطان راہی کی طرح کے قد آدم پوسٹربھی آپ چھاپاکرتے تھے ’’اوصاف ‘‘کا آف ڈے میگزین تو آپ نے ہی شروع کیا تھا۔
عکسی مفتی گڑھے مردے اُکھاڑنے کے موڈ میں تھے، اسی لیے بات کو ادھورا چھوڑ کر ہم وہاں سے اُٹھ آئے۔فاروقیہ مارکیٹ سے ہوتے ہوئے راستے میں نیشنل پریس کلب پڑتا ہے، وہاں چائے پی اور گھر آگئے۔ رات بھر عکسی مفتی کی باتوں نے جگائے رکھا، اُن کی یہ بات کئی دن تک میرا پیچھا کرتی رہی کہ ایک اور 71ہونے والا ہے۔جب بھی یہ بات یادآئی میں لرز لرزاُٹھا۔