لکھ یار
حیات از قلم عظمیٰ خرم
- #پری_اپرووڈ
- #حیات_پارٹ_21
- “خبردار!جو کسی نے ایسا سوچا بھی،یہ نکاح تو ہماری لاشوں پر ہی ہو سکتا ہے -او تیری اتنی جرات …… اتنی اوقات……… کہ تو ہماری ماں کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کرے….. تو ہوتا کون ہے یہ سوچنے والا بھی…….،”میں نے فیصلہ کیا…… ہنہ “…….
- زاہد غصے سے لال پیلا ہوتے ہوے دھاڑا –
- “ہماری ماں ہمارے ابے کی آخری نشانی ہے…… امانت ہے وہ ہمارے ابے کی…… ہم غریب ضرور ہیں احد صب!پر بے غیرت نہیں…..”
- حامد نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا –
- احد کے اطمینان میں دراڑیں پڑنے لگیں……اس نے اپنے اندر اٹھتے ابال کو لگامیں ڈالیں…..اپنے بھائیوں کے منہ سے ایسے “حب الماں” کے جملے سننا اس کے لئے حیرت کا باعث نہ تھا،شدید غصے میں بھی اس کے لبوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ کسی بجلی کی طرح کوندی اور غائب ہو گئی……..
- پر اس کا سامنا جن “گرگوں”سے تھا انہوں نے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس مسکراہٹ کو دیکھ لیا تھا –
- اپنی غصیلی تقریر کا یوں مذاق بنتا دیکھ کر زاہد کو آگ ہی تو لگ گئی تھی…….. احد کے اطمینان کو دیکھ کر اس کے دل نے کسی،”انہونی” کے،”ہو چکنے ” کی چغلی کھائی…….
- بختاور کے دل پر کسی طوفان نے دستک دی……. اپنے بیٹوں کے تیور محسوس کر کے اس کا وجود لرزنے لگا اور آنکھیں بہنے لگیں…… جس کا ڈر تھا وہ،”رسوائی “وہ “کلنک “لگنے کو تھا……
- احد نے فورا ماں کے ظاہر و باطن پر طاری خوف کو محسوس کیا اور اٹھ کے ماں کے ساتھ آ بیٹھا اور اپنا مضبوط بازو اس کے گرد حایل کر دیا –
- بختاور کے ریزہ ریزہ ہوتے وجود کو سہارا ملا تھا……
- احد نے ماں کے چہرے کے ساتھ اپنا چہرہ جوڑتے ہوے اسے مخاطب کیا…..”بےبے میں نے تجھ سے وعدہ کیا ہے نا …… یہ زخم جو تیرے جسم پر لگے ہیں یا جو روح پر لگے ہیں وہ آج کے بعد کبھی نہیں لگیں گے….. بسس حوصلہ رکھ،میری پیاری بہادر ماں…… یہ…”
- “اوے احد! بےبے!جواب کیوں نہیں دیتے….. یہ کیا گٹ پٹ لگا رکھی ہے??? چل بےبے اٹھ…. جا آسیہ اماں کا سامان باندھ… یہ ہمارے ساتھ جائے گی آج ہی……. میں اپنے ابے کی امانت میں خیانت نہیں کرنے دوں گا کسی کو -“
- زاہد کی بات سن کر گویا بختاور کے پچھلے سارے زخم ہرے ہو گئے…… ہر خوف….. ہر تکلیف جو وہ سہہ چکی تھی….. سب یاد آے ایک ایک کر کے……
- رایتہ سمیٹنے کا وقت آ چکا تھا-
- “چوہدری صب! مجھے اندر لے چلیں…. میری دوائی کا وقت نکلا جا رہا ہے…..”
- بختاور اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اس کے لہجے کی مضبوطی…… کسی کھڑی چٹان جیسی تھی…. احد سمیت کمرے میں موجود تمام نفوس کے لئے شدید حیرت کا سامان تھا……. پر اس سے پہلے کہ وجاہت آگے بڑھ کر بختاور کو تھامتا…….
- حواس باختہ زاہد نے بختاور کا بازو جھپٹ کر کھینچا…… اس سے زیادہ کی اس میں تاب نہیں تھی…….”خبردار!چوہدری! جو میری ماں کو ہاتھ بھی لگایا……. “
- پر اگلا لمحہ اس سے بھی زیادہ حیران کن ہونے والا تھا بختاور نے گھما کے زور دار تھپڑ زاہد کو رسید کیا……..
- تھپڑ کی گونج…… اس کے “زبردست “ہونے کا ثبوت تھی…..
- زاہد اس”نا گہانی” تھپڑ کے لئے بلکل تیار نہ تھا گال پر ہاتھ لئے وہ اپنے ہی قدموں پر لڑکھڑا کے رہ گیا -اس نے کھلے منہ،پھٹی آنکھوں میں بے یقینی لئے بختاور کو دیکھا……
- کمرے میں موجود آسیہ اور نشو نے صدمے اور حیرت سے منہ پر ہاتھ رکھ لئے…… گویا تھپڑ کی تپش نے انہیں بھی لال کر دیا تھا –
- “کاش یہ تھپڑ میں تمہیں بہت پہلے مار سکتی،پر خیر دیر آے درست آے….. اور رہی بات میرے نکاح کی تو سب کان کھول کے سن لو،یہ نکاح میری مرضی سے ہوا ہے….. احد کی یا تم دونوں میں سے کسی کی بھی اتنی جرات نہیں ہے کہ مجھ پر اپنی مرضی مسلط کر سکیں…… بچے بچے ہی رہتے ہیں ہمیشہ…. کتنے بھی بڑے کیوں نہ ہو جایں والدین کے درجے کو نہیں پا سکتے….. اور…… یہ بات انہیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے……. میں وہ عورت ہوں جس نے کچی عمر میں بیوگی کا چولا اوڑھ لیا…. خود دھوپ میں جلتی رہی تم سب کو سایہ دینے کے لئے…. اور آج تم سب میرے وارث بن بیٹھے ہو??? ہاں میں تھی تمہارے باپ کی امانت… پر کیا تم نے زاہد…. یا حامد تم نے….. کسی نے بھی اس،”امانت “کی حرمت کا خیال رکھا? نہیں نا…. اس وقت کہاں تھی تمہاری غیرت….. جب اس ماں کو ماں تو چھوڑو ایک بے بس عورت بھی نہ سمجھا تم لوگوں نے….. لاوارثوں کی طرح مجھے اپنی بیویوں سے پٹوایا اور اکیلی کو زمانے کی ٹھوکروں پر چھوڑ دیا…… تم لوگ وہ بد بخت ہو جو نہ خود کسی کو سہارا دیتے ہیں اور نہ کسی اور کو بننے دیتے ہیں -کان کھول کے تم سب سن لو اور ذہن نشین کر لو میں “بختاور”، کبھی بھی اتنی کمزور نہیں رہی جتنا تم لوگ سمجھتے ہو – تم لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے جو عورت جوانی کی بیوگی میں چار بچوں کو تن تنہا پال سکتی ہے وہ اگر کمزور بھی پڑتی ہے تو صرف اپنی اولاد کی وجہ سے اور اگر مضبوط بنتی ہے تو بھی اس کی وجہ وہی اولاد ہوتی ہے…… اور جہاں میری کچھ اولاد ہمیشہ میری کمزوری بنی وہاں میرے رب نے آج میری ایک اولاد کی وجہ سے مجھے مظبوط کیا ہے،پھر سے کھڑا ہونا سیکھایا ہے -“
- کمرے میں موجود ہر نفس نے حیرت سے منہ کھولے بختاور کا یہ روپ دیکھا………. احد کی آنکھوں میں آنسو تھے…… خوشی کے……
- “لو جی! بڑھیا کی تقریر سن لو….. میں تو پہلے ہی کہتی تھی…. یہ سب اس چالاک عورت کے ڈرامے ہیں….. توبہ توبہ کتنی شاطر عورت ہے…. دیکھ لینا زاہد یہ اندھے پن کا بھی ڈرامہ ہی نکلنا ہے…. مجھے تو لگتا ہے تمہارا ابا بیماری سے نہیں مرا…. اسی عورت کی سازش…..”
- آسیہ نے جلتی پر تیل ڈال کر اپنا فرض پورا کرنا چاہا پر اس کا جملہ ابھی پورا بھی نہ ہوا تھا کہ…. بختاور کی گرج اور احد کی اس کی جانب پیش قدمی نے اسکی چلتی زبان کو بریک لگا دی…..
- احد کے تیور دیکھ کر زاہد نے فورا آسیہ کو اپنی اوٹ میں کیا…….
- “آسیہ کو روکنے کا کوئی فائدہ نہیں احد…. آج اس نے کہا ہے کل سارا زمانہ یہی کہے گا کس کس کی زبان روکے گا تو یا ہم??”
- احد نے سرخ ہوتی آنکھوں سے زاہد کو دیکھا اور ہاتھ میں پکڑی پستول لوڈ کی……..
- “سن لیا سب نے نکاح ہو چکا ہے…. اور میری ماں کی مرضی سے سنت کے مطابق ہوا ہے…. باقی سارے سوالوں کے جواب بھی بےبے نے آپ سب کو دے دیے ہیں….. اب جو جو زندہ رہنا چاہتا ہے وہ ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے اور ہماری زندگی سے فورا دفع ہو جائے…. اور آج کے بعد یہاں کا رخ نہ کرے -“
- “ہمارے لئے تو آج سے مر گئی،”بختاور “….. تو ماں کہلانے کے قابل نہیں ہے “
- زاہد پھنکارا……
- “اچھا….. تم لوگ ہو اس قابل کہ اولاد کہا جائے تمہیں…… نکلو یہاں سے ورنہ وہ سلوک کروں گا کہ انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا….. سنا سب نے….?”
- سب جا چکے تھے……. سارے گھر میں سناٹے کا راج تھا…..
- بختاور کی آنکھوں سے آج بھی نیند روٹھی ہوئی تھی….. آج کی جنگ وہ جیت کر بھی ہار گئی تھی….. کیوں کہ مدمقابل اس کے اپنے جگر کے ٹکڑے تھے…….
- خدا جب ناراض ہوتا ہے تو نعمتیں باقی رہتی ہیں پر سجدے کی توفیق چھن جاتی ہے اور جب ماں ناراض ہوتی ہے تو…. . خاموش ہو جاتی ہے……بد دعا نہیں دیتی پر دعاؤں کی ڈھال بھی نہیں رہتی…….
- یمنہ اور احد سلطان لندن جا چکے تھے….
- پورے گھر میں دو تین ملازموں کے علاوہ بس دو نفوس تھے بختاور اور وجاہت……بختاور نے زمانے کے سامنے تو بڑی جرات سے وجاہت کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا پر اپنی تنہائی وجاہت کے ساتھ کیسے بانٹتی….. اس کی انا ہر بار آڑے آ جاتی….. وجاہت بھی یہ بات سمجھتا تھا کہ اس عمر میں ایک نئی تبدیلی قبول کرنا بختاور کے لئے بہت مشکل ہے….. پھر بھی وہ خوش تھا اور اسے یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن بختاور اسے دل سے اپنا لے گی –
- صبح جیسے ہی وہ نماز کے بعد جائے نماز کو تہہ لگتی،پاؤں میں چپل گھسیڑتی دیوار تھام کے باہر جانا چاہتی تو اس سے پہلے ہی بنا کچھ کہے خاموشی سے ایک ہاتھ اس کا ہاتھ تھام لیتا اور اسے باہر لان میں لے آتا….. شروع میں اسے یہ سب ناگوار گزرتا تھا…… وہ ہاتھ جھٹک دیتی….. ہاتھ پھر بڑھ آتا…. وہ جتنا جھٹکتی وہ اتنا ہی زیادہ ہاتھ بڑھاتا….. ایک دن وہ جھنجھلا کے ہنس پڑی…… وہ بھی ہنس پڑا…… تو اسے ہنستا سن کے وہ رونے لگی….. اس نے ہاتھ بڑھا کے آنسو پونچھ دیے……..ناشتے کی میز پر اس کے لئے کرسی لگاتا -کبھی اخبار پڑھ کے سناتا…….
- وہ بھول گئی تھی کہ یہ وہی وجی ہے جو اس کے نا نا کرنے کے باوجود اس کے حصے کے سارے کام بھاگ بھاگ کر کیا کرتا تھا –
- رفتہ رفتہ،جھجکتے جھجکتے فاصلے سمٹنے لگے -اتنے سالوں بعد کسی نے اسے کانچ کی گڑیا کی طرح ہاتھوں پر اٹھا لیا تھا،زمانے کی ٹھوکروں میں بے مول ہو جانے کے بعد پھر سے اسے انمول بنا دیا تھا –
- آنکھیں نہ ہونے کے باوجود…….. وہ اسے اپنے چار سو حصار کی طرح محسوس کر سکتی تھی –
- “بختاور!مجھے گاؤں میں کچھ کام آن پڑا ہے،کیوں نا تم بھی ساتھ چلو, یہاں اکیلے نہیں چھوڑ سکتا تمہیں -“
- بختاور کی زندگی میں اب آ کر تو کچھ سکون آیا تھا،اسے لگا کہ وہ گاؤں جائے گی تو پھر وہی لوگوں کی باتیں…..
- “نہیں اکیلی تو نہیں یاسمین ہو گی میرے پاس….. اسے کہوں گی رات یہیں رک جائے “
- وجاہت نے بہت اصرار کیا پر وہ نہ مانی……… وجاہت کا دل برا ہو گیا –
- وہ نکلنے ہی والا تھا کہ بختاور کی آواز نے اسے پیچھے مڑ کے دیکھنے پر مجبور کر دیا “چوہدری صب! خیر سے جایں, اور ہو سکے تو واپسی میں جلدی کیجیے گا –
- وجاہت نے پاس آ کر اس کے ہاتھ پکڑ کے انشا الله کہا اور چلا گیا –
- یاسمین پاس کھڑی دیکھ رہی تھی،بختاور کو اندر لیجاتے کہنے لگی “بی بی جی برا نا منانا!پر اک گل آکھاں? چوہدری صب تہانوں بوت پیار کردے نے، ورنہ سوچو شی جوان نے ہلے وی پر انہاں نے تہاڈے نال نکاح کیتا، ایہو جے قدر کرن آلے مرد دی تے ہر عورت خواہش کردی اے….. رب دا بڑا کرم اے تہاڈے تے….. میں سارا دن ویخدی آں کملے ہوے پھردے نے تہاڈے پیچھے -“
- ٹھیک ہی تو کہتی تھی یاسمین……. اگلے تین دن اسے پل پل وجاہت کی کمی محسوس ہوئی….. کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب اس نے اسے یاد نہ کیا ہو….. ہر آہٹ پر لگتا کہ وہ واپس آ گیا شائد……..
- وہ انتظار میں کھڑی تھی برستی بارش،گہرا اندھیرا،اس کا دل انجانے خدشے سے زور زور سے دھڑک رہا تھا…… تبھی بجلی کوندی تو اس نے وجاہت کو دیکھا جو اس سے دور جا رہا تھا……. بادل کی کڑک میں اس کی چیخ دب کر رہ گئی وجی!وجی ی ی ی………
- “بی بی جی! بی بی جی! …….. یاسمین کی آواز سے اس نے خواب سے حقیقت تک کا سفر طے کیا……..
- بجلی کی کڑک کے ساتھ بارش بڑے زور سے برس رہی تھی –
- یاسمین نے بار بار حویلی فون ملانا چاہا پر ہر بار انگیج ٹون آتی بختاور کی بے چینی سوا نیزے پر تھی –
- تبھی فون کی گھنٹی بجی بختاور نے جھپٹ کر رسیور یاسمین سے لے لیا “وجی! چوہدری صب! ہیلو آپ ٹھیک ہیں?”
- “ہیلو اسلام علیکم! بےبے یہ میں ہوں احد! سب ٹھیک ہے?? چوہدری صب کدھر ہیں?” وجاہت کی جگہ احد کی آواز سن کے بختاور شرم کے مارے سٹپٹا کر رہ گئی –
- “کیا سوچتا ہو گا احد بھی….. افففف توبہ…..بلا وجہ مجھے ڈرا دیا،شکر ہے وجی کا فون نہیں لگ گیا ورنہ کیا سوچتا میرے بارے میں ” بختاور نے سارا غصہ ہونق بنی یاسمین پر نکالا –
- جاری ہے…….. جاری ہے…….
- از قلم،”عظمیٰ خرم “