سوال……………………صائقہ نجیب
زندگی میں اتنا کچھ کھویاھے،اتناکچھ گنوایاھےکہ اب کچھ پالینے کی جستجوھی نہیں،خاموشیوں کے طوفاں میں ہزاروں سوالات چھپے ہیں جو اپنا جواب چاہتے ہیں،مگرزندگی کی کٹھن رہگزر پہ چلتےھوئےکبھی اتنا وقت ھی نہیں مل پایاکہ ان جوابات کو تلاش کر سکوں۔باوجود اسکےجب کبھی میں فرصت کے چند لمحات پاتی ھوں،تو یہ سب سوالات میرے دائیں بائیں آکھڑے ھوتے ہیں۔اور منتظر رہتےھیں کہ شائید میں ان کو وقت دوں۔ عجیب کشمکش ھے یہ مجھ سے الجھتےرہتے ھیں،مجھے اپنی اوڑکھنیچتےھیں اور میں ھر بار نظر چراجاتی ھوں،دامن چھڑا جاتی ھوں۔خود کو خود سے چھپاتی ھوں،جب کبھی آؒئینہ دیکھوں ،آنکھیں مجسم سوال ھوتی ھیں کیا ھے یہ درد،کس کرب کو خود کومیں سما کے جیئے جا رھی ھوں،چپ کا یہ قفل کب تک،کس جرم کی سزا ھے یہ،اور میں کوئی جواب نہیں دے پاتی۔ بےبسی سے ان کو سنتی رھتی ھوں، کبھی کبھی یہ زندگی ایک پیچیدہ سوال کی طرح سامنے آکھڑی ہوتی ھے ،اور میں اس کو حل نہیں کر پاتی۔شعور اور لاشعور کی ایک جنگ سی برپا رہتی ہے اور سوال پہ سوال اٹھتا ہے ۔ یہ تشنگی کی کیفیت ازل سے ھے ابد تک رہے گی ،سوال کیے جائیں گے ،جوابات دیئے جائیں گے ۔ مگر بہت سے لوگ ایسے ھیں جو ہزار چاہتے ھوئے سوال نہیں کرپاتے۔بس چپ چاپ سنتے رہتے ھیں اور ایک ایسا وقت آتا ھے جب وہ ہر کسی کے سامنے جواب دہ ھوتے ھیں ۔اور ان کی خاموشیوں میں پنہاں درد کوئی نہیں جان پاتا۔ بہت سی باتیں زباں سے کہی نہیں جاتیں۔ سوال کر کے اسے دیکھنا ضروری ھے۔