منٹو کا خاکہ – پیاز کے چھلکے
منٹو (خاکہ)
(ممتاز مفتی)
اردو ٹیکسٹ: طیب اللہ
ادیب کی گاڑی دو پہیوں پر چلتی ہے۔ ایک ’’میں توکچھ بھی نہیں‘‘ ، دوسرا ’’میں سبھی کچھ ہوں‘‘۔ ایک بہت بڑا، دوسرا بہت چھوٹا۔ ایک گول، ایک چوکور۔
عوام کی گاڑی کے پہیے برابر ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی میں روانی ہوتی ہے۔ ادیب لڑکھڑاتا ہے، ہچکولے کھاتا ہے۔
میں سبھی کچھ ہوں اور میں توکچھ بھی نہیں کی مدّ و جزر سے ادیب میں تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اس طوفان زدہ سمندر کو پاٹنے کے لئے راجندر سنگھ بیدی نے ’میں تو کچھ بھی نہیں‘ کی ناؤ بنا لی ، منٹو ’میں سبھی کچھ ‘ کی اگن بوٹ پر سوار ہو گیا اور پھر’ کاسا بیانکا ‘ کی طرح آگ کے شعلوں میں کھڑا ہو کر چِلّانے لگا ’’میری طرف دیکھو، میں سبھی کچھ ہوں‘‘۔
منٹو نے اپنے دُکھ پر ’’چھڈّ یار‘‘ (چھوڑ یار)کا غِلاف چڑھا کر اسے تمغے کی طرح اپنی چھاتی پر مزیّن کر لیا۔
’’چھوڑ یار، میری طرف دیکھ۔ ‘‘
اپنی اس دعوت کو پُر اثر بنانے کے لئے اِس نے فحاشی کی پُھلجڑیاں چلانے کا ڈھونگ رچایا، کالی شلواریں سلوائیں، ٹھنڈے گوشت کو کوئلوں پر رکھ کر کھول دو کی سرگوشی چلادی۔
ہاں ، منٹو بہت بڑا نمائش پسند (exhibitionist) تھا۔
اُس نے گالیاں کھانے کے دلچسپ طریقے ایجاد کِئے، کھائی ان کھائی گالیوں کو جھنڈے پر چڑھا کر لہرایا۔ روز مرّہ کے برتاؤ میں جان بوجھ کر انوکھی کلیاں ٹانکیں۔ لیکن یہ سب کچھ
’ ’میں تو کچھ بھی نہیں‘ کو بُھلا نہ سکا، کانٹا سا دل میں لگا رہا ، ایک بے نام اضطراب اسے گود میں لے کر جھلّاتا رہا،آخر اسے بھلانے کے لئے منٹو نے بوتل کا سہارا لیا۔
امرتسر کا ’بھا ماجھا‘ اور اوپر سے ’میری طرف دیکھو، میں سب کچھ ہوں‘ کے گھوڑے پر سوار ادیب۔ اس نے طیش میں بوتل کی گردن مروڑ دی ’’ جانتی نہیں میں کون ہوں، میں منٹو ہوں، منٹو۔ میں نے گالیوں سے شہرت اخذ کی۔ پریس برانچ کے مولوی محمد حسین کے غم و غصے سے امتیاز کا رس نچوڑا۔ تجھے میرے کہنے پر عمل کرنا ہوگا‘‘۔
بوتل اور سعادت حسن منٹو کی اس جنگ میں بوتل جیت گئی۔ سعادت حسن مارا گیا اور منٹوؔ بُری طرح لڑکھڑاتا رہا۔ اُس کے اِس لڑکھڑانے، گرنے ، سنبھلنے، گرنے سے مدّو جزر پیدا ہوئی، اور عظیم تحریک بن گئی، جس کی ’مد‘کے تحت عظیم چیزیں تخلیق ہوئیں اور ’جزر‘ کے تحت خام، بے ربط، بے معنی تحریریں۔ حیرت زدہ قاری کو فضا میں سے لڑکھڑاتے منٹو کی آوازیں آرہی ہیں …. میری طرف دیکھو، میں سبھی کچھ ہوں۔۔۔ اُن کے سر احترام سے جھک جاتے ہیں، دل محبت سے بھر جاتے ہیں۔منٹو مر کر جیت گیا۔ بوتل جیت کر ہار گئی۔
منٹو سے میں چھ ایک بار ملا اور سعادت حسن سے صرف ایک بار۔سعادت حسن ایک خوبصورت ، نفیس مزاج، ذہین، چُلبلا لڑکا تھا۔ دو ماں زدہ گھر، سخت گیر باپ، جان چھڑکنے والی ماں،نت نئی شرارت کے شگوفے چھوڑنے والے محلے کے نوجوان دوست۔
بنیادی طور پر سعادت میں جھجک تھی۔ یہ کانٹا دور کرنے کے لئے دوستوں کے ساتھ مل کرہڑبونگ مچانے میں اسے راحت ملتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دسویں میں متواتر فیل ہوا۔ عزیز واقارب ولایت پاس تھے، خود مسلسل فیل۔ کمتری پھوڑا بن گئی۔ ذہن کو دھچکا لگا۔ دُکھتی رَگ چِھڑ گئی۔ زُعم جاگا۔ کچھ کر دکھاؤں گا۔ سارا عزم ایک بات پر مرکوز ہو گیا۔ چیخوف کی کہانیوں کا ترجمہ کرنے کی ٹھانی۔ مطالعہ میں دن رات ایک کر دےئے۔ مطالعہ اور محنت۔ دوستوں میں کھیلنے والے نے کتابوں میں الگ دنیا بسا لی۔
میں نے پوچھا ’’سعادت، طبع زاد چیزیں کیوں نہیں لکھتے؟‘‘
بولا ’’ابھی برتن بھرا نہیں، بھرے تو اُچھلے۔‘‘
اُسی دور میں سعادت حسن دُھندلا پڑتا گیا اورمنٹوؔ اُبھرتا گیا۔ شاید منٹو نے اس حقیقت کو پا لیا کہ بھرنا ضروری نہیں، اُچھلنا ضروری ہے۔۔۔ یا شاید منٹو کی شِدّت کا آتش فِشاں پھوٹ نکلا جس نے اچھال کو تنکے کی طرح اُٹھا کر پھینک دیا۔
پہلے سنبھل سنبھل کر اور پھر مچل مچل کر اُچھلا۔ اس اُچھل کا نشہ جوں جوں منہ کو لگتا گیا ، سعادت حسن ،منٹو میں تبدیل ہوتا گیا۔
سعادت بے حد پیارا آدمی تھا۔ اس میں عورت حاوی تھی۔ ایک ذہین، ہمدردی سے بند بند بھری عورت، ایک چلبلا شریر بچہ ، ایک بھا ماجھا… سعادت کی شخصیت میں یہ تینوں گڈمڈ ہو ئے تو اس نے یہ سب منٹو کو دے دیا۔ لہٰذامنٹو کی بنیادی خصوصیات سعادت والی ہی رہیں… ہمدردی، فیّاضی، معصومیت، ذہانت، ہُلّڑ بازی، صرف اس نے شرمیلی عورت کی آنکھوں میں ’میری طرف دیکھو‘ کا کاجل لگا دیا۔ ہونٹوں پر ’میری سُنو‘ کی سُرخی تھوپ دی۔ سعادت کے گونگے بھا ماجھے کو زبان دے دی۔گونگا بولنے لگا۔
اِن دنوں یہ فیشن ہو گیا ہے کہ چمکیلی بات کرو اور انٹلیکچؤل بن جاؤ۔ یہاں وہاں سے ہم لوگ چمکیلی باتیں چُنتے رہتے ہیں۔ ان چمکیلے بنٹوں سے جیب بھر کر چائے خانوں میں جا بیٹھتے ہیں۔ وہاں بنٹے کھیلتے ہیں، بنٹے سے بنٹا ٹکراتے ہیں۔ پھر یہی چمکیلے بنٹے افسانوں کی لڑیوں میں پِروئے جاتے ہیں اور ادب پارے تخلیق ہوتے ہیں۔
چمکیلی بات ذہن میں پھلجڑی چلاتی ہے، دل میں گرمی کی رو نہیں چلاتی۔ دورِ حاضرہ چمکیلی باتوں کا دور ہے، دل کی مدّہم دھڑکنوں کا دور نہیں۔ دِکھاوے کے exhibitionist منٹو نے نمائش بازی کا سیاہ نقاب اوڑھ رکھا تھا۔ نقاب تلے فیشن سے عاری چٹ کپڑی ، گھریلو جینئس تھی، جس کے دل میں شدّت کا آرا چل رہا تھا۔بند بند میں درد کا رچاؤ تھا، دیکھنے والی نگاہ تھی، بے پناہ خلوص کی دھڑکن تھی۔
شخصیت بھی عجیب معجزہ ہے۔ جہاں تضاد ہارمنی پیدا کرتا ہے، ہارمنی تضاد پیدا کرتی ہے۔ اس دکھاوے کے exhibitionist نے سرکس کے جوکر کی طرح بڑے بڑے شاندار کرتب دکھائے۔ کسی نے کہا’’ منٹو،’ آؤ‘ کے عنوان سے لکھو‘ منٹو نے ڈرامے لکھ دےئے، کسی مسخرے نے اُکسایا ’منٹو، پتھر پر لکھ سکتے ہو؟۔۔۔ منٹو کس چیز پر نہیں لکھ سکتا اور منٹو نے پتھر پر لکھ دیا۔ نہ جانے کیا لکھ دیا۔
پھر بوتل بولی’’مجھ سے ملاقات چاہتے ہو تو لکھو.. . بِکنے کے لئے لکھو، پینے کے لئے لکھو، پبلشر کے آگے سیس نواؤ، قاری کے لئے جنس کی پھلجڑیاں چلاؤ،کالی شلواروں میں ٹھنڈے گوشت کی گٹھریاں باندھو… پھر میں تم سے آ ملوں گی۔ منٹو نے عمدہ کاغذ کا گٹھا اُٹھایا، ’’یار نذیر، 50 روپے دے دو، نہیں قرض نہیں مانگتا یار، نقد ملے گا، ابھی ابھی دو افسانے لکھ کر دوں گا۔ ابھی ابھی، ایک نہیں دو افسانے‘‘۔
منٹو نے سعادت حسن کے نام سے اپنا خاکہ لکھا ہے۔ لکھتا ہے’’منٹو اوّل درجے کا فراڈ ہے، کہتا ہے میں افسانہ نہیں سوچتا ، افسانہ مجھے سوچتا ہے۔ دراصل افسانہ لکھتے وقت اس کی وہی حالت ہوتی ہے جیسے انڈا دیتے وقت مرغی کی ‘‘
یہ مرغی بوتل کے لئے انڈے دیتی رہی۔ ایک نشست میں دو ،دو۔ کاش یہ مرغی انڈوں کو سینا بھی جانتی۔
منٹو بڑی صلاحیتوں کا مالک تھا، اس کے پاس نگاہ تھی، زیرِ لب تبسّم تھا، آنسوؤں میں خون کی سُرخی تھی۔
لیکن منٹو نے اپنا آپ یوں لُٹا دیاجیسے کسی عورت نے محلّے والوں کو اپنی نئی انگوٹھی دکھانے کے لئے اپنے گھر کو آگ لگا دی تھی۔
( کتاب: پیاز کے چھلکے )