کتاب : تلاش
باب 13 : انوکھا شہنشاہ
ٹرانسکرپشن : عائشہ چوہدری
مفاد پرستوں کی باندی
بہرحال ایک بات تو ظاہر ہے کہ سائنسی طریقِ کار نہ تو یقینی ہے اور نہ مکمل۔
سائنس تو اللہ تعالیٰ کی حکمتیں سمجھنے کے لئے ہم نے ایک باندی مقرر کر رکھی ہے۔ یہ تو مغربی تہذیب کا چمتکار ہے کہ انہوں نے سائنس کو اتنی اہمیت دے رکھی ہے ورنہ آج کل تو سائنس کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ پہلے وہ کائنات کے راز یعنی اللہ کی حکمتوں پر تحقیق کیا کرتی تھی ۔ تعمیری چیزوں کا کھوج لگایا کرتی تھی۔ آجکل تو وہ حکومتوں، تاجروں، اور دیگر مفاد پرستوں کے لئے چھوٹے چھوٹے تخریبی کام کرنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔ سائنس دان اب اپنی مرضی کے مطابق کام نہیں کرتے۔یا تو حکومتیں انہیں خرید لیتی ہیں یا اگر وہ بکنے سے انکار کر دیں تو انہیں زبردستی یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔ حکومت کے علاوہ تاجر لوگ اپنے جائز ناجائز مفادات حاصل کرنے کے لئے سائنسدانوں کو استعمال کرتے ہیں۔
مغربی تہذیب نے اکنامکس کو زندگی کا معیار اور مقصد قائم کر کے مفاد پرستی کو ہوا دی ہے۔ مثال کے طور پر جب نئی نئی ای ایس پی رائج ہوئی تو انسانی ذہن کی ایک نئی طاقت ٹیلی پیتھی ظہور میں آئی کہ انسان اپنا خیال دوسرے انسان کے ذہن میں منتقل کر سکتا ہے۔ اس پر بہت سے تجربات کئے گئے مثلاً دو دوستوں کو دور دراز بٹھا دیا گیا۔ دونوں کے سامنے تاش کی گڈیاں رکھ دی گئیں۔ایک نے حکم کی بیگم کو اٹھایا اور لاشعوری طور پر کوشش کی کہ اس کا دوست جو کئی ایک میل دور بیٹھا تھا اور اسکی طرف متوجہ تھا، وہ بھی حکم کی بیگم اٹھا لے۔ مطلب تھا کہ ایک فرد کا خیال دوسرے ذہن میں منتقل کرنا۔ اس طاقت کو مختلف تعمیری صورتوں میں ترقی دی جا سکتی تھی لیکن مفاد پرستی کی اس فضا میں جو مغرب نے قائم کر رکھی ہے، علم یا اخلاق یا روحانیت کا کھوج مقام ہی نہیں۔ لہٰذا ٹیلی پیتھی کی طرف توجہ نہ دی گئی۔