گُرداس۔۔۔۔داس گُرو۔۔۔سمے کا بندھن
گُرداس۔۔۔۔داس گُرو
سنگلدیپ کے مہاراج رانی شنکتلہ دیوی کے پس بیٹھے تھے۔ دفعةً انہوں نے سر اٹھایا ۔بولے ”مہارانی کچھ دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہمارے پاس ہوتےہوےبھی ہمارے پاس نہیں ہوتیں۔ یوں لگتا جیسے تم بٹ گی ہو۔ ایک نہیں رہیں۔ تمہیں کس بات کی چنتا ہے ؟“ مہارانی بولی ” ہاں مہاراج ۔۔یہ سچ ہےکہ مجھے چنتا لگی ہے۔ پر مہاراج بات اتنی چھوٹی ہے کہ آپ سن کر ہنس دیں گے۔“ مہاراج مسکراۓ، بولے ” شکنتلے ،سیانے کہ کہتے ہیں ، بڑی چنتا ٸیں گھن گرج کرآتی ہیں، اور چلی جاتی ہیں۔ بے شک جھنجھوڑتی ہیں، پر کچھ زیادہ نہیں بگاڑتیں۔لیکن چھوٹی چنتاٶں سے ڈرو۔ انہیں بھیتر میں نہ پالو۔ باہر نکالو۔ انھیں جانو۔مانو۔اپناٶ ۔اپنا لو تو دور ہو جاتی ہیں۔نہ اپناٶ تو چمٹی رہتی ہیں“۔ ”آپ سچ کہتے ہیں مہاراج “ مہارانی نے جواب دیا ”پر بات میری اپنی نہیں ،راج کماری کی ہے“۔ ”راج کماری کی ؟“ مہاراج نے دہرایا۔ ”ہاں مہاراج“ مہارانی نے جواب دیا“ کچھ دنوں سے میں دیکھ رہی ہوں کے راج کماری کا پاٶں چلے ہے۔ یوں چلے ہے ،مہاراج جیسے انڈہ پھینٹتے ہوے چمچہ چلتا ہے“۔ ”بے وجہ“۔مہاراج نے پوچھا ۔ ”بے وجہ“ مہارانی نے کہا ”جب راجکماری بیٹھی پڑھ رہی ہوتی ہے یا آرام سے لیٹی ہوتی ہے تو اسکا دایاں پاٶں آپ ہی چلتا رہتا ہے ۔ اور مہاراج اسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ پاٶں چل رہا ہے۔“ یہ سن کے مہاراج کا ماتھا ٹھنکا۔کچھ دیر تک سر جھکاۓ سوچ میں پڑے رہے ۔ پھر بولے ”اسلیے تو نہیں کے راجکماری جوان ہو گی ہے؟“ ”پتہ نہیں ، مہاراج “ مہارانی نے جواب دیا ”آج کل کے نوجوانوں کے ڈھنگ کچھ اور ہی ہیں۔ سُر اور ہے۔تال اور ہے۔ رنگ اور ہے“ ”ھوں“ مہاراج پھر سوچ میں پڑ گۓ ۔ پھر بولے ”کہیں ایسا تو نہیں کہ راجکماری پریم کےبندھن میں بندھ گٸ ہو؟“ ”نہیں مہاراج ۔ایسی کوٸ بات نہیں۔“ ”وشواس سے کہ رہی ہو شکنتلے؟“ ”ہاں، مہاراج ۔ پریم ایک ایسا بندھن ہے ، مہاراج جو چھپاے نہیں چھپتا۔ پھر یہ بھی ہے ، مہاراج کہ نٸ پوچ کو بںدھن سے چڑ ہے۔ کوٸ بندھن ہو۔ کیسا بھی ہو۔ باہر کاہو یا بھیتر کا ، انہیں گوارہ نہیں۔ مہاراج کے دل میں ایک پھانس لگ گٸ ۔ سوچ میں پڑ گۓ ۔ کس سے پوچھیں؟ ایسے میں انہیں سوامی واسدیو یاد آیا کرتے تھے۔ وہ مہاراج کے گُرو تھے۔وہ ہر بات میں سہارا دیتے ۔ ہر اُلجھن میں راستہ دکھاتے ۔ کڑی دھوپ میں ساٸہ بن جاتے۔ گھور اندھیرے میں دیا سمان ٹمٹماتے۔ لیکن آٹھ برس ہوے وہ سنگلدیپ چھوڑ کر جا چکے تھے۔ انکی خواہش تھی کہ مرنے سے پہلے ساری دنیا کے پوتر استھانوں کے درشن کر لیں۔سوامی بہت بوڑھے تھے۔ چلنا مشکل تھا۔ اسلیے انکے چیلے گُرو داس نے انہیں اپنی پیٹھ پر اٹھا کر یاترا کروانے کا عہد کیا تھا۔ آٹھ سال سے وہ لاپتہ تھے۔ کسی کو معلوم نہیں تھا وہ کہاں ہیں۔ ایک دن مہاراج نے اپنے وزیر مسٹر منگل راۓ سے برسبیل تزکرہ پوچھا ”راۓ جی، یہ بتاٸے کے کیا یہ ممکن ہے کہ جسم کا ایک حصہ تو مسلسل حرکت میں رہے لیکن ذہن کو پتہ نہ ہو، ”خبر ہی نہہ ہو“۔ راۓ مہاراج کے منہ سے یہ بات سن ٹھٹھکے۔ بولے مہاراج ”پوری بات کیجیے۔ ادھوری سے آپ نے مجھے کنفیوژ کر دیا ہے۔“ مہاراج نے کہا” راے جی ایک لڑکی کا پاٶں چلتا ہے۔ یوں چلے جاتا ہے جیسے نیلی چڑیا کی دُم چلتی ہے۔جیسے انجن کا پسٹن چلتا ہے۔اور لڑکی کو خبر ہی نھیں ہوتی۔“ راۓ یہ سن کر گھبرا گیا،بولا ”مہاراج آپ نے یہ بات کس سے سنی؟“ ا س سوال پر مہاراجہ خود حیران رہ گۓ ۔لیکن خاندانی راجا تھے۔جانتے تھے کہ راجہ کو سننا زیادہ چاہیے اور بولنا کم کم۔اسلٸے چپ رہے۔ راۓ بولا ”مہاراج ایک برس ہوا کہ میں نے کالج کی ایک لڑکی سے بیاہ کیا تھا۔بیاہ کے دو مہینے بعد میں نے اتفاقاً دیکھا میری بیوی کا پاٶں چلتا رہتا ہے۔ان جانے میں چلتا رہتا ہے.اس پر میں گھبراگیا۔ سوچا شاید وہ ناخوش ہو اور پاٶں کا چلنا ناخوشی کا اظہار ہو۔میں نے بڑے بڑے ڈاکٹروں اور ویدوں سے پوچھا۔وہ بولے شاید یہ گھومنے پھرنے کی دبی دبی خواہش کا اظہار ہو۔تو مہاراج میں نے بیوی کو باہر بھیجوا دیا کہ اسے خوب گھماٶ پھراٶ۔“ ”ھوں“ مہاراج کی دلچسپی بڑھی”پھر؟“ ”چھے مہینے دنیا میں گھومنے پھرنے کے بعد جب وہ گھر لوٹی تو اسکا پاٶں پہلے سے بھی زیادہ چل رہا تھا۔“ وزیر کی بات سن کے مہاراج بالکل ہی کنفیوزڈ ہو گۓ۔وہ سوچتے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جسم کا ایک حصہ یوں اضطراب میں۔شدت سے ،چلے اور ذہن کو خبر نہ ہو۔بھگوان نے یہ کَل جسے انسان کا جسم کہتے ہیں ،ایسی بناٸہے جس کا جواب نہیں۔ہر حصہ دوسرے حصے سے جُڑا ہوا ہے۔ پھر اگر پاٶں چلے تو ضرور نسیں بھی چلتی ہوں گی۔آنتیں بھی چلتی ہوں گی۔اندر ایک جَھّکڑ چل رہا ہو گا۔ایسے میں خبر نہ ہو؟یہ کیسے ہو سکتا ہے! اسی رات راج بھون میں ایک سادھو آگۓ ۔مہاراج نے راج بھون کے ساتھ ہی بَھوس کی چار ایک کُٹیاٸیں بنا رکھی تھیں۔جن میں وہ بھگتوں، سادھوں یوگیوں کو مہمان رکھا کرتے تھے۔نوکروںکو حکم تھا کہ انکی سیوا میں ذرا فرق نہ آۓ۔ مہاراج خود انکی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے۔حسب دستور اس رات وہ سادھو کی خدمت می حاضر ہوے۔ہاتھ جوڑ کر ”جی آیاں نو “ کہا۔ سادھو نے پاس بٹھا لیا۔ سادھو نے چھُٹتَے ہی کہا ”راجہ جی، یہ ہم کیا دیکھ رہے ھیں؟مُکھ پر چنتا نے جالا بُن رکھا ہے۔اگر یہ چنتا پرجا کی ہے تو ٹھیک ہے۔ جو اپنی ہے تو ٹھیک نہیں۔ راجا تو سیوا کار ہوتا ہے۔ راج پاٹ تو ایک اوٹ ہے۔“ ”ہاں،مہاراج ،چنتا ہے اور اپنی ہے“۔مہاراج نے جواب دیا”میری پُتری جوان ہے۔اسکا پاٶں چلتا ہے۔چنتا کی کوٸ بات نہیں۔پھر بھی چنتا ہے۔“ سادھو ہنسنے لگا”ہاں،نٸی پوچ کا یہ ہی حال ہے۔چنتا کی کوٸ بات نہیں،پھر بھی چنتا ہے۔جلدی کی کوی جرورت نہیں،پھر بھی جلدی ہے۔ہلچل کی لوڑ نہیں،پھر بھی ہلچل ہے۔“ ”ایسا کیوں ہے مہاراج؟“راجہ نے پوچھا۔ سادھو نےاپنی ٹھوڑی ٹیک پر رکھ لی اور نگاہیں دور گاڑ دیں۔بولا۔”سب سمے کا چمتکار ہے،مہاراج۔سب سمے کی لِیلا ہے۔ اک سمے آتا ہے جب لوگ عقل کے پرونے بن جاتے ہیں۔دلیل کو مانتے ہیں۔سُد بُدھ کو اُتم جانتے ہیں۔اس سُدبُدھ کو وشواس کو نہیں۔پر انتو شک شُبہے کو ابھارتی ہے۔وہ کیوں۔کی
یسے۔کس لٸے سوچتے ہیں۔ ”دوجا سمے آتا ہے جب عقل کا بت ٹوٹ جاتا ہے دل کی دھڑکنیں اُبھر آتی ہیں۔وشواس جاگتا ہے۔شک شبہے جھاگ بن کر اُڑ جاتے ہیں۔راجہ جی،اب وہ سمے نہیں جب تم پل کر جوان ہوے تھے۔وہ سمے بیت گیا۔نیا نکور سمے آیا ہے۔پرنتو تم راجہ ہو۔تمہیں کیا خبرکہ کیسا سمے ؒ آیا ہے۔“ راجہ بولا۔”سادھو مہاراج میں اتنا بے خبر نہیں ہوں۔“ ”گھسّہ نہ کھاٶ۔“ سادھو بولا”ہر بادشاہ،ہر راجاٰبے خبر ہوتا ہے۔اُسے خبر اَوش پہنچتی ہے مگر وہ چھلنی میں چھانی ہوی خبر ہوے ہے۔“ ”چھلنی کیسی۔سادھو مہاراج؟“راجا نے پوچھا۔ ”دیکھو مہاراج“سادھو نے کہا”ہر راجا کے گرد جی حضوریوں کا گھیرا ہوتا ہے۔ان کا کام راجا کو پرسن رکھنا ہوتا ہے۔یوں کے جو راجا سننا چاہے،وہ ہی اسےسنایا جاۓ۔جو وے دیکھنا چاہے وہی اسےدکھاے ۔جو نہ دیکھنا چاہے،نہ سننا چاہے۔وہ چھان کر پھینک دیا جاۓ۔اس پر پردہ ڈال دیا جاۓ۔ ”ویسے بھی،مہاراج ،راجا کو پرجا کی خبر نہیں ہوتی۔کارن یہ کے پرجا پہّیے سمان ہوتی ہے۔وہ گھومن میں پڑی رہتی ہے۔راجا اس پہّیے کا دُھرا ہوتا ہے۔بیچ کا نقطہ۔وہ گھومتا نہیں۔قم رہتا ہے۔اسی کارن پرانے راجا اور بادشاہ راتوں کو بھیس بدل گھوما پھرا کرتے تھے۔یہ جانن کے لٸے کہ پرجا کس حال میں ہے،کس رنگ میں رنگی ہے۔کس چال میں چلے ہے۔“ راجا نے سادھو جی سے کہا ”مہاراج،ہمارے گھرانے میں پرانی ریِت ہے کہ بچے جوان ہو جاٸیں تو انھیں کچھ دنوں کے لیے آشرم میں بھیج دیتے ہیں تا کہ کَس بل نکل جاٸیں۔آپ کہیں تو میں اپنی پُتری کو۔۔۔۔۔“ سادھو نے مہاراج کی بات کاٹی۔بولا”نہ نہ نہ۔آشرم میں ان کو بھیجتے ہیں جن میں پیچھے چلنے کی شکتی ہو۔جو گُرو کو جانتے ہوں ۔گرونیتاکو مانتے ہوں۔نٸ پوچ میں پیچھے چلنے کا حوصلہ نہیں ۔وہ خود کو دوجے کے حوالے نہیں کر سکتے۔وہ آگے چلنے کی اُکسا لٸے ہوے ہیں۔پر کوی بات نہیں۔جس نے یہ سمے بھیجا ہے۔وہ آگے چلنے والی بھیڑوں کا رکھوالا بھی بھیجے گا۔“ یہ کہ کر سادھو خاموش ہو گیا۔کچھ دیر کے لٸے آسمان کی طرف تکتا رہا۔پھر کہنے لگا”نراش نہ ہو، مہاراج۔تیرے گُرو سوامی داس دیو اپنی یاترا پُوری کر چکے ہیں۔وہ پہنچنے ہی والے ہیں۔سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔“ مہاراج کو سادھو کی باتیں بہت دل لگیں۔ان کے دل میں پرجا کے متعلق اپنی بے خبری کا احساس اُبھرا ۔اُن کے دل میں آرزو پیدا ہوی کہ میں بھیس بدل کر نگر میں گھوموں پھروں اور لوگوں کا حال چال جانوں۔دقّت یہ تھی کہ مہاراج میں اکیلے گھومنے پھرنے کا حوصلہ نہ تھا۔وہ چاہتے تھے کوی ساتھی ہو۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے انہیں انجنا یاد آگٸ۔انجنا سنگلدیپ کی اونچی ناٸیکہ تھی۔ مہاراج اسے ان دنوں سے جانتے تھے جب وہ خود راجکمار تھے،اور انجنا کی جوانی کو بوتل نٸی نٸی کھلی تھی۔شوں کا عالم تھا۔بلبلے اُٹھتے تھے۔پھُوار اڑتی تھی۔چوبارے میں آنے والے تو کیا،سارے شہر والے بہیگے ہوے تھے۔اس زمانے انجنا کی ناٶسمان ڈولنے والی آنکھوں سے مہاراج مدھ کے پیالے پیا کرتے تھے۔ تعلق بھی کیا چیز ہے۔پہاڑی چشمے کی طرح کہاں سے پھوٹتا ہے اور پھر ندی نالہ بن کر کدھر کو بہ نکلتا ہے۔انجنا سے مہاراج کا ناتا دلگی اور خوش وقتی کے لٸے جڑا تھا،جو چلتے چلتے جیون ساتھ بن گیا۔اب انجنا انکی دوست تھی۔ساتھی تھی۔سب کچھ تھی۔جو بات وہ کسی اور کے منہ سے نہ سن سکتے تھے،انجنا کے منہ سے سنتے ،سر دھنتے۔ وہ بوڑھی ہو کر ناٸیکہ بن گٸ تھی۔یہ عمر رسیدہ ہو کر،مہاراج۔۔دونوں جُوں جُوں عمر رسیدہ ھوتے گۓتعلق تُوں تُوں بڑ کے درخت کی چھاٶں بنتا گیا تھا۔گھنی ٹھنڈی چھاٶں باٸ بھی عجب مخلوق ہوتی ہے۔اسے محبوبہ بنا لو تو وہ تم سے کھیلے گی۔تگنی کا ناچ نچاۓ گی ۔جلتی پر تی چھڑکے گی۔سانس لینے نہ دےگی۔ماں بنا لو تو تمہاری پاکیزگی کی ضامن ہں جاۓ گی۔تمہیں بچا بچا کر رکھے گی۔اس فکر میں گھلتی رھے گی کہ داغ نہ پڑ جاۓ۔دھبا نہ آ جاے۔ساتھی بنا لو تو تمہارے سر پر بڑ کا درخت بن کر تن جاۓ گی۔چھاٶں ہی چھاٶں۔گھنی چھاٶں۔خوشبودار چھاٶں۔ رات پڑی تو مہاراج نےبھیس بدلا۔وہ جب بھی انجنا کے ہاں جاتے بھیس بدل کر جاے۔باٸ کے چوبارے میں صدر دروازے سے نہیں، بغلی دروازے سےداخل ہوتے۔ باٸ نے جب مہاراج کی آمد کا سنا تو اس نے ننھی،گڈو اور گلابی کو ہدایت دیں کہ محفل جاری رہے،رقص کی لے بڑھتی جاۓ اور نرت میں آنکھیں یوں کنکھیوں سے نکل نکل کر باتیں کریں کہ تماش بینوں کے لیے سانس لینا دشوار ہو جاۓ۔اور خود پیچھے دالان میں مہاراج کے پاس آبیٹھی۔ مہاراج پہلے ادھر اُدھر کی پوچھے رہے۔اصلی بات کھولنے سےپہلے رسمی فیتے کناریاں ٹانکتے رہے۔باٸ کاٸیاں تھی اتنے سارے دلوں سے کھیل چکی تھی۔جانتی تھی کہ باہر کی بات کیا ہوتی ہے،بھیتر کی کیا ہوتی ہے۔بولی ”اےحضور،اب اصلی بات پر آٸیے۔کیسی چنتالگی ہے؟“ مہاراج ہنس کر بولے ”چنتا ہی کو دور کرنے کے لیے تمہارے دوار آےہیں“۔ باٸ مسکاٸ”اے حضور ہم باٸیاں چنتا دور نہیں کرتیں۔انھیں پیدا کرتی ھیں۔اُبھارتی ہیں۔یوں کے ان کا تار بندھا رہے۔“ مہاراج نے کہا”انجنا یہ چنتا ہماری نہیں ہماری پُتری کی ہے“۔ وہ سنجیدہ ہو کر بیٹھ گٸ۔”کیا ہوا،راجکماری کو؟“ ”اس کا پاٶں چلتا ہے“مہاراج نے کہا۔ ”پاٶں چلتا ہے!یہ تو کوی چنتا کی بات نہیں۔گھر گھر یہی حال ہے۔جوان لڑکیوں کے پاٶں یوں چلتے ہیں جیسے گھڑی کا پنڈولم چلتا ہے۔“ ”انجنا۔انجانے میں چلتا ہے“ مہاراج نے کہا۔ ”جانے میں اتنی تیزی سے چل ہی نہیں سکتا، حضور۔“ ”سیانے کہتےہیں گھٹن کی وجہ سے چلتا ہے۔“ ”نہیں، حضور،اب میرا ہی گھر لیجیے۔یہاں کا گھٹن ہو گی۔پرمیری سب سے چھوٹی ندچی جو ہے،اسکا پاٶں چلتا ہے۔میں نے نچوا نچوا کر اسکا پلیتھن نکال دیا۔پھر بھی چلتا ہے۔ایک دن اس نےمجھ سے پوچھا : داس آشرم ہو آوں؟“ ”داس آشرم؟“مہاراج نے دھرایا”یہ کیسا آشرم ہے؟“ ”وہ نوجوانوں کا آشرم ہے۔وہ جو تپسوی بیٹھا ہے۔وہ بھی نوجوان ہے۔وہ خودکو گُرو نہیں،بلکہ داس کہتا ہے۔وہاں وہ نوجوان جاتے ہیں جن کے پاٶں چلتے ہیں۔نسیں چلتی ہیں۔دل چلتے ہیں۔وہاں کوی روک ٹوک نہیں۔نوجوان جو جی چاہے، کرتے ہیں،ناچتے ہیں۔گاتے ہیں۔دارو پیتے ہیں۔تاش کھیلتے ہیں۔جب گُرو ہی کوی نہیں
تو حضور بندش کیسی۔نوجوان وہاں رہنا چاہیں تو ٹیلے پر کھلے میدان میں پُھوس کا جھونپڑا بنا لیتے ہیں۔بس داس کا ایک مطالبہ ہے کہ رات کے وقت لڑکیاں لڑکوں میں نہ رہیں۔الگ جھونپڑوں میں چلی جاٸیں۔“ مہاراج بولے ”انجنا چلو۔ہم بھی وہاں چلیں۔“ ”حضور میرا خود جی چاہتا ہے کہ جا کر دیکھوں۔“ ”پھر سوچتی کیا ہو؟“ ”وہ ہمیں وہاں ٹکنے نہیں دیں گے۔عمر رسیدہ لوگوں کے لٸے آشرم کے دوار بند ہیں۔“ ”نہ ٹکنے دیں“ مہاراج نے کہا”چلو ایک نظر ہی دیکھ لیں گے۔ایک سادھو مہاراج راج بھون آۓ تھے۔کہتے تھے ، راجہ کو پرجا کے حال کا پتہ نہیں ہوتا۔جو خبر ملتی ہے وہ چھلنی سے چھانی ہوی ہوتی ہے۔اسلٸے راجہ پر لازم ہے بھیس بدے کر باہر نکلے۔پرجا کے رنگ ڈھنگ،دکھ درد اپنی آنکھوں سے دیکھے۔انجنا تم میری ساتھی بنو گی؟“ انجنا ہنسی،بولی”اے حضور،باٸ صرف دو کام جانتی ہے۔ایک تو لوگوں کو لوٹنا،انہیں بے وقوف بنانا۔مُنڈنا۔نچوڑنا اور دوجا ساتھ دینا۔تن من دھن سے ساتھ دینا۔حضور یہاں بس لوٹنے کا کام ہے۔میں تو ترسی ہوی ہوں کہ کوٸ ہو جس کا ساتھ دے سکوں۔“ انجنا اور مہاراج دونوں نے گیروے کپڑے پہنے،سادھو سادھنی کا رنگ جمایا اور داس آشرم کو چل دٸے۔داس آشرم مایا نگر کے پاس ڈِنگے ٹبّے کی چوٹی پر واقع تھا۔جب وہ ڈِنگے ٹبّے کے اوپر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت کھلا میدان ہے۔جس میں یہاں وہاں بہت سے گھنی چھاٶں کے درخت لگے ہیں۔درختوں کی چھاٶں میں بیس پچیس پُھوس کے جھونپڑے بنے ہوے ہیں۔جھونپڑوں کے سامنے،میدان میں نوجوان ٹولیوں میں بنے ہوے ہیں ۔ایک ٹولی گانے میں مصروف ہے۔دوسر ناچ رہی ہے۔ایک ٹولی سرداٸ گھوٹنے میں مصروف ہے۔ سادھو سادھنی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر سب متوجہ ہو گے۔گانا بجانا چھوڑ کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔یہ دیکھ کر داس کا بالک دوڑا انکے پاس آیا۔ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔بولا ”سادھو ،سادھنی جی،جی آیاں نوں۔پرنتو کوٸ بھول ہے۔یہ استھان سادھوں کے لیے نہیں۔“ سادھنی بولی،”مہاراج ہم بھول سے ادھر نہیں آے۔ہمیں آشرم کے گُرو سے ملنا ہے۔“ ”نہ مہاراج “بالکے نے جواب دیا”یہاں کوی گُرو نہی۔۔۔یہ آشرم نہیں۔۔۔چھوٹوں کی منڈلی ہے۔چھوٹوں کے داس اُدھر کٹیا میں بیٹھے ہیں۔“ ”بس ہمیں انھیں سے ملنا ہے۔گھبراٶ نہیں۔ہم یہاں ٹِکےگےنہیں۔۔داس سے ملنے کی آگیا دو۔“ ”نہ سادھنی جی۔یہاں کوٸ آگیا نہیں دی جاتی۔یہاں کوٸ روک نہیں۔ٹوک نہیں۔جب گُرو ہی نہیں تو روک ٹوک کیسی۔یہاں کوٸ دوار بند نہیں۔سب کھلے ہیں۔وہ سامنے رہا۔داس جی کا دوار۔ پدہاریے ،سادھو،سادھنی جی۔“ داس ایک خوش شکل نوجوان تھا۔بال لٹ پٹ۔داڑھی گھنی،بھور کالی۔گیروے رنگ کی جین اور قمیص۔آنکھیں مدھ سے مخمور۔سادھو سادھنی کو دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔انہیں چٹاٸ پر بٹھایا۔ سادھنی بولی”یہ کیسا آشرم ہے، مہاراج؟“ داس نے جواب دیا ”آشرم نہیں،سادھنی جی،منڈلی ہے۔“ ”آشرم نہی منڈلی ہے۔گُرو نہیں داس ہے۔یہ کیسا بھید ہےمہاراج؟“ داس بولا ”بس ایک ہی بھید ہے کہ کوی بھید نہیں۔اس سنسار کی طرح سادھنی جی،بھید سامنے دھرا ہے۔لوگ سامنے دھرےکو نہیں دیکھتے۔کہتے ہیں،بھید ضرور چھپا ہوتا ہے۔اس لٸےوہ ڈھونڈنے میں لگے ہیں۔پربُھو نے سامنے دھر کر بھید کو چھپا لیا ہے۔“ ”سچ کہتے ہو،داس جی“ سادھو گنگنایا۔ سادھنی بولی”بات کھلی نہیں۔داس مہاراج۔آپ نے یہ روپ کیوں بدل دٸے؟ آشرم کو منڈلی بنا دیا۔گُرو کو داس بنا دیا۔ مہاراج ،مدھ تو ایک ہی ہے۔یہ پیالہ کیوں بدل دیا؟“ ”سچ ہے۔سادھنی جی ، مدھ تو ایک ہی ہے۔پر ٹھو ٹھے بدلتے رہتےہیں۔ جیسا سمے ویسا ٹھوٹھا۔ پرانے سمے میں لوگ کہتے تھے :کوٸ آگے چلے۔ راستہ دکھاۓ۔گُرو بنے۔ اب سمے بدل گیا ہے۔ پیچھے چلنے والے لوگ نہیں رہے۔ اب ایسا گُرو چاہیے جو پیچھے چلے۔“ ”داس جی “سادھو بولا”ایسا کیوں کے آج کے لوگ پیچھے چلنے والے نہیں؟“ داس مسکرایا۔بولا ”آگے پیچھے کو بھول جاٶ۔آگے پیچھے کا وشواس ہم نےخود باندھ رکھا ہے۔سچ یہ ہے کہ یہاں نہ کوی آگے ہے نہ پیچھے۔یہ دیکھو کہ وہ چلنے والے ہیں۔ان میں چلنے کی لگن ہے۔ ان میں ڈھونڈ ہے۔“ وہ رک گیا۔ پھر بولا ”مہاراج جب پرانی راہیں پٹ جاتی ہیں تو پربھو ڈھونڈ کی جوت جگاتے ہیں۔ اور مہاراج، ڈھونڈ اندھی ہوتی ہے۔آگا پیچھا نہیں دیکھتی۔ بُرا بھلا نہیں دیکھتی۔انھوں نے کیا نہیں آزمایا۔دیس تیاگا۔دولت تیاگی۔ آرام تیاگا۔ڈگر ڈگر گھومے۔نشہ اپنایا۔اب وہ حرکت کی بھینٹ چڑھے ہوۓ ہیں۔ جلدی کے چکر میں پڑے ہیں۔ ان کی راہ روکو۔ جنھیں نٸی راہ ڈھونڈنی ہوتی ہیں انھیں روکتےنہیں۔ روکو گے تو ان کے دل چلیں گے، نسیں چلیں گی، پاٶں چلیں گے، وِچار چلیں گے۔ “ داس خاموش ہو گیا۔ کُٹیا میں گہری خاموشی چھا گٸ۔ ”ایک بات پوچھوں،داس مہاراج؟“ سادھنی نے خاموشی کو توڑا۔ داس نے سر کو اُٹھایا۔ سادھنی بولی، ”آپ کا گُرو کون ہے؟“ ”میرے پتہ جی“ داس نے کہا۔ ”وہ کہاں ہیں؟“ ”پتہ نہیں“ داس بولا”جب میں سترہ سال کا تھا وہ مجھے چھوڑ کر چلے گۓ تھے۔اُنہوں نے پرتگیا کی تھی کہ اپنے گُرو سوامی واسدیو کو اپنی پیٹھ پر لاد کر دنیا بھر کے پُوتر استھانوں کی یاترا کراٸیں گے۔“ ”تم ۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔!“ سادھو حیرت سے بولا”تم گُرو داس کے پُتر ہو؟“ ”جی مہاراج“ داس نے جواب دیا۔”میرے پِتا بہت بڑے داس تھے۔اُنھوں نے مجھے داس بننا سکھایا۔ وہ گُرو کے داس تھے۔ میں چیلوں کا داس بنوں گا۔ راہ تو ایک ہی ہے چاہے آگے چل کر راہ دکھاٶ ۔ چاہے پیچھے چل کر راہ پر لاٶ۔“ ”دھن ہو مہاراج “ سادھو ہاتھ جوڑے فرط جزبات سے اُٹھ بیٹھا۔ عین اس وقت باہر میدان سے اِک شور بلند ہوا۔ کُٹیا میں خاموشی چھا گٸ۔ سب کی توجہ شور پر لگی تھی۔ پھر بالک دوار پر آ کر چلایا”مہاراج آپ کے پتا جی پدہارے ہیں۔“ ”میرےپتا جی“ داس نے دہرایا اور کُٹیا سے باہر نکل گیا۔ پیچھےیچھے سادھو اور سادھنی تھے۔ سامنے بڑ کےدرخت تلے ایک شخص یٹھا تھا۔ اُس نے اپنے بڈھے گُرو کو پیٹھ پر اُٹھایا ہوا تھا۔ درخت کے قریب پہنچ کر سادھو نے ہاتھ جوڑے”سوامی واسدیو جی مہاراج ۔“ سادھنی نے چیخ ماری”وہ دیکھو !وہ دیکھو !“ وہ چلاٸ ۔ ”گُرو کا دھڑ سُکھ کر چیلے کے گرد لٹکا ہوا ہے اور چیلے کا
سر سوکھ کر گُرو ک چھاتی پر ڈھلکا ہوا ہے۔“ ”بھگوان کی لِیلا ہے“داس بولا”جس چیز کی لوڑ نہ تھی وہ سوکھ کر جھڑ گٸ۔داس کا سر گُرو کا دھڑ،دو جسم ایک بن گۓ۔ بالکا چلایا” مہاراج ،آج گُرو اور چیلے کا بھید کھل گیا۔“ ”ابھی نہیں“ سادھنی بولی،”اس بھید نے نیا چولا بدل لیا ہے۔ گُرو چیلوں کا داس بن گیا ہے۔